کسی جگہ ایک بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔
دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُسکا خاوند اُس کیلئے محبت بھری شاعری کرتا اور اُس کیلئے شعر کہتا تھا۔
عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔
جب اس عورت سے اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا
کہ آیا وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟
یا وہ بہت ہی حسین و جمیل اور خوبصورت ہے؟
یا وہ بہت زیادہ عیال دار اور بچے پیدا کرنے والی عورت رہی ہے؟
یا اس محبت کا کوئی اور راز ہے؟
تو عورت نے یوں جواب دیا کہ
خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوراگر یہی عورت چاہے تو اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سےبھی بھر سکتی ہے۔
مت سوچیئے کہ مال و دولت خوشیوں کا ایک سبب ہے۔ تاریخ کتنی مالدار عورتوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے خاوند اُن کو اُنکے مال متاب سمیت چھوڑ کر کنارہ کش ہو گئے۔
اور نا ہی عیالدار اور بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی خوبی ہے۔ کئی عورتوں نے دس دس بچے پیدا کئے مگر نا خاوند اُنکے مشکور ہوئے اور نا ہی وہ اپنے خاوندوں سے کوئی خصوصی التفات اور محبت پا سکیں بلکہ طلاق تک نوبتیں جا پہنچیں۔
اچھے کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں رہ کرمزے مزے کے کھانے پکا کر بھی عورتیں خاوند کے غلط معاملہ کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور خاوند کی نظروں میں اپنی کوئی عزت نہیں بنا پاتیں۔
تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور خوشیوں بھری زندگی کا کیا راز ہے؟ اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان پیش آنے والے مسائل اور مشاکل سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟
اُس نے جواب دیا: جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا تھا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں ( نہایت ہی احترام کے ساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ احترام کےساتھ خاموشی کا یہ مطلب ہے کہ آنکھوں سے حقارت اور نفرت نا جھلک رہی ہو اور نا ہی مذاق اور سخریہ پن دکھائی دے رہا ہو۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال اور ایسے معاملے کو بھانپ لیا کرتا ہے۔
اچھا تو آپ ایسی صورتحال میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟
اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی، خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے نا صرف یہ کہ سُننا بلکہ اُس کے کہے سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔ میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جایا کرتی تھی، کیونکہ اس ساری چیخ و پکار اور شور و شرابے والی گفتگو کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہوتی تھی۔ کمرے سے باہر نکل کر میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کام کاج میں مشغول ہو جاتی تھی، بچوں کے کام کرتی، کھانا پکانے اور کپڑے دھونے میں وقت گزارتی اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور بھگانے کی کوشش کرتی جو میری خاوند نے میرے ساتھ کی تھی۔
تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اختیار کرلینا اور خاوند سے ہفتہ دس دن کیلئے بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟
اُس نے کہا: نہیں، ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا فعل اور خاوند کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دو رُخی تلوار کی مانند ہے۔ اگر تم اپنے خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع شروع میں اُس کیلئے یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنا چاہے گا اور بولنے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نا بولنے کی استعداد آ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔ خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے آکسیجن کی مانند ہو اور تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہے۔اگر ہوا بننا ہے تو ٹھنڈی اور لطیف ہوا بنو نا کہ گرد آلود اور تیز آندھی۔
اُس کے بعد آپ کیا کیا کرتی تھیں؟
اُس عورت نے کہا: میں دو گھنٹوں کے بعد یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس کا ایک گلاس یا پھر گرم چائے کا یک کپ بنا کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت ہی سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہوتا تھا۔ میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات ہوئی ہی نہیں۔
جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔جبکہ میرا ہر بار اُس سے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔ اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویئے کی معذرت کرتا تھا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔
تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
ہاں، بالکل، میں اُن باتوں پر بالکل یقین کرتی تھی۔ میں جاہل نہیں ہوں۔
کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھ سے غصے میں کہہ ڈالتا تھا اور اُن باتوں پر یقین نا کروں جو وہ مجھے پر سکون حالت میں کرتا تھا؟ غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو اسلام بھی نہیں مانتا، تم مجھ سے کیونکر منوانا چاہتی ہو کہ میں اُسکی غصے کی حالت میں کہی ہوئی باتوں پر یقین کرلیا کروں؟
تو پھر آپکی عزت اور عزت نفس کہاں گئی؟
کاہے کی عزت اور کونسی عزت نفس؟ کیا عزت اسی کا نام ہے تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ و ترش باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نا دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پر سکون ماحول میں کہہ رہا ہے!
میں فوراً ہی اُن غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔
جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل کے اندر موجود تو ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے۔
waaaaah kya baat hai ji bht achi post
حسین
ماشاالله بہت خوبصورت انداز اللہ تعا لی ہمارے سب مسلمان بہنو کو ایسی عقل اور بصیرت عطافرمایی اور سب بہایوں کو اپنی بیویو کی ساتھ اچہی اخلاق سے پیش انے کی توفیق عطافرمای
واقعی بہت خوب صورت تحریر ہے لیکن بات وہی ہے کہ جسطرح مکھی کا کام صرف گندگی پر بیٹھناہوتاہے اسی طرح کچھـ لوگ تعصب میں اس طرح آگے بڑھ جاتےہیں کہ ان کو اچھائی میں بھی برائی نظرآتی ہے۔ اللہ تعالی ہم کو صحیح طورپراسلام پر عمل پیراہونےکی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین ثم آمین
محترم جاوید اقبال صاحب۔ بلاگ پر خوش آمدید۔ مضمون کی پسندیدگی کیلئے بہت بہت شکریہ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو خوش اور شاد رکھے۔ آمین۔ ٓپ سے ملاقات رہے گی۔
great article… great blog… surely i will come again 🙂
عمدہ تحریر کےلئے آپکا بہت شکریہ ………
محترم وسیم عباس، بلاگ پر خوش آمدید- تحریر آپ کو پسند آئی جس کیلئے میں بھی آپکا شکر گزار ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو صبر و تحمل کی دولت سے نوازے۔ آمین
AOA
Muhammad Saleem Sb.
App key thaireer boath achai ya thaireer main nai apanai wife ko gift key hai pls is thara key or thaireer b liktai raha karai
Best Regards
Shaik Ismail
Respected Shakil Ismail, Welcome to my blog, I wish you a healthy, wealthy and prosperous life.
ماشاء اللہ کافی اچھا مضمون لکھا ہے۔ واقعی بہت فائدہ مند ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ اختلافی باتوں کا ذکر نہ ہو، کیونکہ لوگ میں اختلاف کا بہانہ بنا کر شریعت کو چھوڑ کر اپنے خواہشات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ بات خطرے سے خالی نہیں ہے۔
باقی رہی یہ تنقیدیں تو ۔۔۔۔ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کیلئے
محفل میں اکثر دوست دیکھ کر خوشی ہوئی۔
پیارے خراسانی صاحب، آپ تو مضمون پر (و ختامہ مسک) کی مانند آئے ہیں۔ جی ہاں ، آپ کے سارے مشورے انتہائی قیمتی اور قابل عمل ہیں۔ اور اس بار تو میرے بلاگ پر اتنے سارے دوستوں نے آ کر رونق ہی لگا دی ہے۔
M.A Siddiqui
Assalam o Ailkum .
Very knowledgable article for all not only wives but also for husbands.ALLAH bless u.
Dear Muhammad Saleem
AOA
One of my colleage Mr.Muhammad Iqbal Khan always forward your articles to me as and when he receives. I read but till date not commented to the reason i do not know but all the articles are very interesting and informative and knowledgeable. You are serving the whole whords who know urdu and are interested . May ALLAH Bless you for this service and give power, strength to continue till the end of your life. AMIN
Respected Said Rehman, Wa Alaikum Salam. Welcome to my blog. It is my pleasure to learn you read my articles occasionally. Thanks to dear Muhammad Iqbal Khan. May Allah bless you all with health, wealth and happiness in your life. I am thankful to your kind wishes for me.
great
تحریر بہت اچھی لگی۔
برائے مہربانی اس جملے تو تبدیل کر دیں، اس سے غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے۔
"غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو اسلام بھی نہیں مانتا”
عامر شہزاد، طلاق کے بارے میں جو آپکا نقطہ نظر ہے وہی میرا بھی ہے۔ یہاں پر میری بات کا مطلب کچھ اور تھا۔ تاہم غصے ایک ایسی حالت بھی ہوتی ہے جس میں طلاق قبول نہیں کی جاتی۔ اس کے بارے میں جاننے کیلئے یہ مضمون پڑھیں۔ http://www.islamqa.com/ur/ref/45174
شکریہ
Very nice indeed, as I suffered the same situation that you have told in your article, but my wife has taken Khulla from court just 3 months (14 March 2011) before without caring our son, Abdullah Ahmad. who is just 1 year old, Now she is living with her parents and Abdullah is in her custody. We both will be married again if written in fate but how to assure about my son that he will be a normal person.
I don’t want to go to court for his visitation rights neither they are allowing me to meet with my son. I just pray to God to give me patience an long and good life to my Abdullah
You have written exactly the same words that I was thinking some days before, "She caught all my words said in anger which last only 5 minutes, and forgot all the good time spent with me in these 2 years”
Allah Talah hum sab par apna karam karay
Dear Umair Ahmed, I am sorry to hear your sad story, May Allah bless you with patience and protect your son from all harms in his life. Yes brother, this was the main reason I tried to raise in this article. Allah ham sab par apna karam karay. Ameen
I really appreciate, it is very nice and informative. May GOD bless you.
SONIA GHAZAL
Sister Sonia Ghazal, thanks for your kind appreciations. Wishing all the best and happiness for you…
خوب تو آپ نے بھی وہی کیا جو آپکے بھائی بند کرتے ہیں،
جو آپکی بات کے خلاف جائے اس کے تبصرے بلاک کردو،
بس یہی ہے آپکی مسلمانیت؟؟؟؟؟؟؟
عبداللہ، بخدا تم مجھ پر طنز، وار یا پھر تضحیک و تنقید کرتے تو تمہارا تبصرہ کبھی بھی نا مٹاتا۔ تم پرائی لڑائی میں پڑ رہے تھے جس سے کوئی مثبت بات تو نا ملتی مگر ایک جدل کا ماحول ضرور بنتا۔ صرف امن کو برقرار رکھنے کیلئے مجھے تمہارا وہ تبصرہ حذف کرنا پڑا تھا۔
سلیم بیٹا، عبداللہ پاگل ہو چکا ہے، نفسیاتی مریض ہے، ڈاکٹر بھی ہاتھ اٹھا چکے ہیں اس کے علاج سے، بیٹا عبداللہ نہایت ہی خطرناک مریض ہے، براہ مہربانی اسے نظر انداز کرو، ورنہ یہ ہماری طرح آپ کی زندگی بھی جہنم بنا دے گا۔۔۔
عبداللہ کا بدقسمت باپ، ابو عبداللہ
پیارے ابو عبداللہ، آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ اللہ آپ پر اپنا رحم فرمائے۔ آمین یا رب
بہت خوب ،
تو آپ بھی اپنے بھائی بندوں کی طرح اسلام اسلام کی راگ مالا الاپتے ہوئے جھوٹ کا پرچار فرماتے ہیں،
پھر تو ہو چکا آپ کی باتوں میں اثر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا کونسا تبصرہ گالیوں سے بھر پور تھا جسے آپکو اپنے بلاگ سے ڈلیٹ کرنا پڑا؟؟؟؟؟؟
یہاں جو میرے خلاف گند گھولا جارہا ہےآپکا اسے انجوئے کرنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ
یہاں موجود گند میں جناب ایک اور بڑا اضافہ ہیں،
مبارک ہو!
جولوگ میرے مرحوم والد اور میری محترم والدہ کے بارے میں یہاں گند پھیلا رہے ہیں انہیں میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یاد رکھیں انشاء اللہ وہ بہت جلد اپنے کیئے کا مزا چکھیں گے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،
میرے والدین نے خشگوار ازداجی زندگی کے تیس سال ایک ساتھ گزارے ،اورپھر قضائے الہی سے والد صاحب کے انتقال کے بعد ہماری والدہ محترمہ نے ہم سات بھائی بہنوں کو ہمت اور حوصلے کے ساتھ سنبھالا،
میں اپنے ساتھ کیئے ہوئے ہر سلوک کو معاف کرسکتا ہون مگر اپنے محترم والدین کے بارے میں کی ہوئی بکواس کا ایک لفظ بھی معاف نہیں کروں گا!!!!!!!!
اگر آپ میں رتی بھر بھی غیرت اور شرم و حیا ہے تو آپ میرا یہ تبصرہ چھاپیں گے ،اور اسے ڈلیٹ نہیں کریں گے!
بسم الله الرحمن الرحيم
ياعبد الله اعتقد بانك تفهم عربي لذا سارد عليك بالعربي …. يجب عليك احترام الناس وتقديرهم ولاتتكلم بما لاتعلم لقد سمعت بانك تعيش في السعودية في ارض طاهرة ولايليق بك ان تتكلم بهكذا كلام من ارض طاهرة نقي وطهر قلبك ولاتثير العداوة والبغظاء جزاة الله خير الجزاء الاستاذ سليم حيث عمل من مبداء ذكر فان ذكراى تنفع المؤمنين . من المفروض علينا اولا شكره على المواضيع الهامة واللطيفة والتي تدخل قلوبنا بسهولة الا تعلمون بانه يقوم بجهد كبير من اجل من ؟؟؟؟ اتعطونه نقودا على مقالته ؟؟؟ انه يكتب مقالته لله فان كانت لكم حجة بالغة قلتقلها ولترد عليه بالحجه لا ان تتكلم بغوغائيه ولغة الحمقاء لم ارى احد يرد على الحسنة بالسيئه … فل نقل جميعنا اولا جزاك الله خيرا اخ سليم هل قراتم المقال بتمعن ؟؟؟؟ المقال يتحدث عن السعادة الاسريه ولايتحدث عن العنصريه كما تناقشها انتم بعقولكم الضيقة يتكلم عن تضحيات الزوجة لزوج والزوج لزوجة اذا اخذتم كل شيء بالعصبية والعنصرية فلن تفلحوا اذا ابدا
عبداللہ، تمہارے اس خط کا مختصر جواب یہی بنتا ہے کہ میں تمہیں (اللہ یسامحک) کہوں اور چپ ہو جاؤں۔ تفصیلی جواب یہ بنتا ہے کہ میں تمہارا تبصرہ ڈیلیٹ نہیں سپیم فولڈر میں محفوظ رکھا ہوا ہے اور تم جانتے ہی ہو کہ تم نے اس میں کس طرح کی عامیانہ زبان استعمال کی ہوئی ہے۔ گویا تمہارا تبصرہ شائع نا کر کے تمہاری بھلائی ہی کی ہے جس کیلئے تمہیں میرا مشکور ہونا چاہیئے۔ مستقبل کیلئے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ تمہارے تبصروں کے ساتھ کیا کرونگا۔ اللہ تمہیں خوش رکھے۔ میرا ایک مشورہ مانو، مضمون پر اُسی کی مناسبت سے تبصرہ کیا کرو اور پرائی لڑائی میں بھی نا پڑا کرو۔ خیر اندیش
آپ نے میرا جو تبصرہ محفوظ رکھا ہوا ہے اسے فورا سے پیشتر چھاپیں تاکہ مجھے پتہ چل سکے کہ وہ میرا ہی ہے یا میرے آئی ڈی سے کسی اور نے کیا ہے،
کچھ عرصے سے کسی خبیث کو میرا آئی ڈی ہیک کرنے کا خبط ہو گیاہے!!!!
میں فوراً ہی اُن غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔
یہاں آپ نے گالیوں کی بات لکھ کر گالم گلوچ کرنے والے مردوں کو ایڈوانٹیج دیا ہے اور اسی پر مجھے شدید اعتراض ہے،
کیا اسلام میں مردوں کو گالم گلوچ کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنکے ہم عاشق بنتے ہیں،انکا گھر والوں کے ساتھ یہی رویہ ہوتا تھا جو آج ہمارا ہے؟؟؟؟؟؟
عبداللہ، شادی ایک بشری ضرورت ہے جس کیلئے شاید پکا مسلمان اور پھر عاشق رسول ہونا شاید شرط نہیں ہے۔ تمہیں شاید پتہ ہی ہوگا کہ عورت کو روزے کی حالت میں بھی کھانے کا نمک چھکھ لینے کی اجازت ہے اگر——-۔ اور یہ والا خاوند جس کیلئے روزے کی حالت میں بھی نمک چکھ لینے کی اجازت ہے وہ کس قسم کا خاوند ہوگا تم اندازہ لگا سکتے ہو۔ عبداللہ، عورت کے پاس اتنا صبر ہوتا ہے نو مہینے حمل اٹھا سکتی ہے، درد زہ کا عشر عشیر مرد کو برداشت کرنا پڑے تو مرد مر جائے۔ ایسی صابر عورت اگر گھر کی بقا اور حفاظت کیلئے خاوند کی چند کڑوی کسیلی باتیں برداشت کر لے تو گھر جنت بن جائیگا۔ مجھے امید ہے کہ میں نے تمہارا جواب دیدیا ہوگا۔
نہیں ،
ایک صابر عورت کے صبر کو دن و رات آزمایا جاتا ہے اس کی برداشت کو اس کی کمزوری سمجھا جاتا ہے،
کیا یہ حقائق آپکی نظر سے پوشیدہ ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟
ہماری ساری ڈیمانڈز عورتوں ہی سے کیوں ہوتی ہیں؟؟؟؟؟؟
ہم خود اپنے نفس پر کنٹرول کرنے کے بجائے عذر لنگ کیوں تراشتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
یہ جتنے زہنی مریض ہیں یہ سب اپنے باپوں کے یا استادوں کے مظالم کا شکار لوگ ہیں،
ایسے مردوں کی بیویاں بھی ذہنی مریضائیں بن جاتی ہیں ،جو بچوں کے لیئے مرے پر سو درے ثابت ہوتے ہیں!
کیا یہ سچ نہیں؟؟؟؟؟؟؟
عبداللہ ، اب تم اس قدر غصے میں بھلا کیا خاک سمجھو گے میری باتوں کو؟
نہیں جناب یہ غصے کیا ویسے بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے جسقدر گند مچایا ہے۔ آجکل وہ عنیقہ ناز اپنے بلاگ پر سنبھالتی اور شائع کرتی ہے۔ باقی کچھ لوگوں نے انکو مکمل بین کیا ہے۔ کچھ ان کے تبصرے ڈیلیٹ کر دیتے ہیں جبکہ کچھ ان کے تبصرے صرف اتنا شائع کرتے ہیں جہاں تک یہ کچھ کمال نہ کر رہے ہوں۔ آپ بھی جلد یا بدیر ان کو بین یا ڈیلیٹ کر دینے پر مجبور ہا جائیں گے۔ پہلی نشانی ہوتی ہے یہ آپ کے بلاگ پر لنک پوسٹ کر جائیں گے۔ جب یہ لنک پوسٹ کریں۔ آپ کو میرا یہ تبصرہ بغور پڑھ لینا چاہئے۔
پیارے بد تمیز، اتنے سارے قیمتی مشوروں کا شکریہ۔ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، مجھے عنقریب ان پر عمل کرنا پڑے گا۔ اس بار تو کچھ سپیم کر کے اور کچھ ڈیلیٹ کرکے بچ گیا ہوں، آئندہ آپکے مشوروں پر عمل پیرا رہونگا۔
محترم سلیم صاحب السلام علیکم۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔تحریر پسند کرنے کاشکریہ ۔یہ میری اپنی کہانی اپنی زبانی ہے۔”بیوی کا عاشق“ میں اپنے ماہانہ رسالے” سوئے حرم“ کے اصلاح و دعوت والے حصے میں شائع کر رہا ہوں۔جولائی میں شائع ہو گی۔ شائع ہونے پر لنک بھیجوں گا۔اس بلاگ پر کیا ساری تحریریں آپ کی ہیں؟اگر ترجمہ ہو تو براہ کرم اصل مصنف کا نام ضرور شائع کریں بصورت دیگر میں سمجھوں گا کہ یہ آپ کی تحریر ہے او رآپ ہی کے نام سے سوئے حرم میں شائع کرتا رہوں گا۔ سب تحریریں بہت اچھی ہیں۔ اللہ کریم آپ کا حامی و ناصر ہو۔محمدصدیق بخاری
پیارے محمد صدیق بخاری صاحب، و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی سے نوازے رکھے- بے شک آپ دنیا میں سعادت والی زندگی پا رہے ہیں۔ جی یاں میری تحریر ایک عربی مقال کا ترجمہ تھی۔ کچھ مقالات انٹرنیٹ اتنے شدومد سے موجود ہوتے ہیں کہ اصل مصنف کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ میرے بلاگ پر موجود تمام تحریریں میری ذاتی کاوشیں ہیں جن کے پیچھے عربی مواد اور مقالات کا اثر تھا۔ آپ نے اس تحریر کو اپنے موقر فریدے کیلئے منتخب کیا جس پر فخر محسوس کر رہا ہوں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
محمد صدیق بخاری
ایک شوہر کا اپنی بیوی کو خراج تحسین
یہ7 199 اکتوبر کی آخر ی رات تھی ۔جوں جوں رات بیت رہی تھی اس کی بے کلی اور بے قراری میں اضافہ ہوتاجا رہا تھا۔ وہ کبھی بیٹھ جاتی اور کبھی ادھر ادھر گھومنے لگتی ۔ اسے طرح طرح کے اندیشے اور خیال آر ہے تھے۔ اس کا دلِ مضطرب مسلسل دعا میں مصروف تھا۔وہ اللہ سے اپنے شوہر کی خیریت مانگ رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا خاوند کبھی وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور جو بات کہتا ہے اسے پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے ۔ اس کے خاوند نے مغرب کے وقت اسے فون کیا تھا کہ وہ سفر سے واپس آ گیا ہے اور عشا تک گھر پہنچ جائے گا۔ اس پیغام سے وہ بہت خوش ہوئی کیونکہ وہ کم وبیش چالیس دن بعد واپس آر ہا تھا۔اس مسافر کی والدہ اور اس کے بچے الگ منتظر تھے مگر مغرب سے عشا ہو ئی وہ نہ آیا ۔ عشا کے بعد بھی رات ڈھلتی رہی، مگر وہ نہ آیا۔ ایک گھنٹہ ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے ، مگر پھر بھی دروازے پر کوئی دستک نہ ہوئی ۔ اب تو وہ بہت مضطرب ہو گئی تھی۔آخر وہ نماز کے لیے کھڑی ہو گئی ۔ اور سجدے میں اپنے رب کوپکارتی رہی۔ نمازسے کچھ سکون ملا تو وہ بستر پر دراز ہوئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ ہرہر آہٹ پر چونک جاتی اور ہر ہر دستک پر تڑپ اٹھتی مگر بے سود۔ کروٹیں بدلتے بدلتے تہجد کا وقت آن پہنچا تھا۔ وہ ایک بار پھر رب کے حضور سجدہ ریز ہو گئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اتنی بے قراری اور اضطراب بے وجہ نہیں ۔ دل تھا کہ سنبھل ہی نہیں پا رہا تھا۔
اِدھر اس کی یہ بے قراری تھی اور اُدھر اس کا خاوند لاہور کے جنا ح ہسپتا ل میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ چالیس دن کا سفر کر کے ژوب ،بلوچستان سے واپس آیاتھا اور رائے ونڈسے اس نے اپنی بیوی کو اطلاع دی تھی کہ وہ عشا کے بعد گھر پہنچ جائے گا۔حسب ِوعدہ وہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ رائے ونڈ سے لاہور کے لےے ایک پرائیویٹ کار میںروانہ ہوا مگر ابھی رائے ونڈ سے پانچ ہی کلومیٹر دور آئے تھے کہ کا رایک ٹریکٹر ٹرالی کے ساتھ براہ راست ٹکر ا گئی ۔اللہ کی شان تھی کہ ڈرائیور سمیت اس کے دونوں ساتھی بالکل محفوظ رہے مگر تقدیر کو اس کا امتحاں مقصود تھا۔ اس کی ٹانگ تین جگہ سے اس طرح ٹوٹ گئی تھی کہ ہڈی کے بعض ٹکڑے ہی غائب ہو گئے تھے۔ہاتھ ، پسلیاں، چہرہ اور سر بھی بری طرح مجروح تھے۔پیشانی سے ایک بڑا شگاف سر کے اندر تک چلا گیا تھا اور اس میں سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا ۔ وہ مکمل بے ہوشی میں تھا۔ اس کے ساتھیوں نے بڑی مشکل سے اسے پچکی ہوئی گاڑی میں سے نکالا اور جیسے تیسے جناح ہسپتال پہنچایامگر انہیں امید نہ تھی کہ زندگی کی شمع جلتی رہے گی۔
رات کا اختتام ہوا چاہتا تھا۔ مساجد سے فجر کی صدا بلند ہوئی او راس نے انتہائی بے بسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھا اور یا اللہ کہہ کر نظریں جھکا لیں۔بچے انتظارکر تے کرتے سو ئے تھے اس لیے فجر میں فوراً بیدا ر ہو گئے اور مسجد کی طرف بھاگے۔ ان کا خیا ل تھا کہ شاید ان کے والد مسجد میں آ چکے ہوںگے ۔ مسجد میں دیکھا تو اس کے والد کے وہ دوست تو موجود تھے جو اس کے ساتھ گئے تھے مگر والد کا کہیں پتا نہ تھا۔ یہ دیکھ کر بچے انتہائی اضطراب میں گھر کو واپس دوڑے اور ماں سے پوچھا ، امی، ابو کہاں ہیں؟ ماں نے یہ سنا تو دل تھام کے بیٹھ گئی ۔ اس یوں لگا کہ اس کے خدشات سچ ثابت ہو نے کا وقت آن پہنچا۔اسی اثنا میں وہ دوست گھر آ پہنچے ۔ان کی خاموشی ایک پوری داستان سنا رہی تھی۔ جب مسافر کی والدہ نے پوچھا کہ میرا بیٹا کہاں ہے ؟ تو انہوں نے بس یہ کہا کہ دعا کریں۔ یہ الفاظ سنتے ہی اسے یہ محسوس ہو ا کہ جیسے زمین اس کے پاﺅں سے نکلی جارہی ہو یا جیسے اس کے سر سے آسمان کی چھت ہٹ رہی ہو ۔ایک بار پھر وہ بہتے آنسوﺅں کے ساتھ دست بدعاتھی۔ وہ روتی رہی اور روتی رہی ۔ پھر اچانک اسے یوں لگا کہ جیسے کسی فرشتے نے اس کے دل کو تھام لیا ہو۔ اس کے آنسو رک گئے تھے اور اس کا دل یقیں سے بھر گیا تھا۔ اب وہ ایک نئے عزم کے ساتھ ایک نئے سفرکے لیے تیار ہورہی تھی۔
سورج نکل آیا تھا مگر اسے محسوس ہی نہ ہوا کیونکہ اس کا اپنا سورج جو گہنا گیا تھا۔ وہ ہسپتال جانے کی تیاری کر رہی تھی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ تلاوت اور دعا میں مصروف تھی۔ لوگو ں کی تسلیاں اسے طفل تسلیا ں محسوس ہو رہی تھیں۔ البتہ اپنے مالک کے کرم سے اسے امید ضرور تھی کہ اس کے سر کا سائباں قائم رہے گا ۔ اس نے کہا مالک !میں اس بے رحم دنیا کی چلچلاتی دھوپ میں تنہا سفر نہیں کر سکتی تو کرم فرمادے ۔ وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلی تھی مگر اس کے مالک نے اسے اس مشکل گھڑی سے نبرد آزما ہونے کے لیے بے پناہ حوصلہ دے دیا تھا۔ اس نے ایک بچے کوگود اٹھایا ، ایک کو انگلی لگایا اور ہسپتال کے لیے روانہ ہو گئی۔ وہاں پہنچی تو آنسوﺅں کاسیلاب پھر امڈ آیامگر اس نے انتہائی صبر سے خود کو تھامے رکھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا خاوند نیم بے ہوشی میں ہے تا ہم پہچانتا ضرور ہے ۔ وہ اس بات پر اپنے مالک کی بے انتہاشکر گزار تھی کہ وہ ایک با رپھر اپنے شوہر کو زند ہ حالت میں دیکھ رہی تھی۔ اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے شوہر کو تسلی دینے کی کوشش کی ۔تھوڑی دیر بعد اس کے شوہر نے کہا کہ اب تم گھر چلی جاﺅ اسے عجیب سا لگا ۔وہ وہاں اور رکنا چاہتی تھی مگر اس کے شوہر کو یہ فکر تھی کہ اس نے اکیلے جانا ہے اس لیے رات سے پہلے پہلے گھر پہنچ جائے۔ اس کے بعد دو ہفتے مسلسل اس حال میں گزرے کہ وہ تہجد کے وقت بیدا رہوتی تو رات کے گیارہ بج جاتے مگر اسے آرام کا ایک لمحہ نہ ملتا۔مگر وہ پھر بھی مطمئن تھی کیونکہ اسے امید ہو چلی تھی کہ اس کاخاوند صحت یاب ہو جائے گا۔وہ تن تنہا اس نئے چیلنج کا سامنا کر رہی تھی۔گھرسے کبھی نہ باہرنکلنے والی یہ خاتون اب روزانہ ویگنوں میں سفر کرتی اور روزانہ ہسپتال جاتی۔وہ کئی گھنٹے وہاں ٹھہرتی اور پھر واپسی پر گھر کو سنبھالتی ۔ ایک یا دو بچوں کو وہ ہسپتال ساتھ لے جاتی اور دو کو ان کی دادی جان کے پاس چھوڑ جاتی۔اسکا دل چاہتا تھا کہ وہ ہسپتال ہی میں رہے اور اپنے خاوند کی خدمت کرے مگر اس کے گھر کو کون سنبھالتا اس لیے ہر روز وہ چاروناچار ہسپتال سے واپس لوٹ آتی۔ اس کے شوہر کے ہر ہر زخم پر پٹی بندھ چکی تھی مگر ٹانگ کے فریکچر باقی تھے ۔ ان کا آپریشن ہونا تھا مگر ڈاکٹر سر کی چوٹ سے مطمئن نہ تھے ان کا خیا ل تھا کہ آپریشن کے لیے اگر ہم نے اسے بے ہوش کیا تو یہ پھر ہوش میں نہ آئے گا۔ وہ خود بھی سر کی چوٹ سے بہت پریشان تھی کیونکہ کبھی کبھی اس کاخاوند ایسی بات کر جاتا تھا جس سے محسوس ہوتا تھا کہ اس کی یاد داشت صحیح کام نہیں کررہی یااسے پہچاننے میں دقت ہو رہی ہے ۔ او ر پھر اس دن وہ کتنی خو ش ہوئی تھی جب اس کے شوہر نے ڈاکٹر سے پوچھا تھا کہ ڈاکٹر آپ میری ٹانگ کا آپریشن کیسے کریں گے ؟ ڈاکٹر نے کہاتھا کیوں؟ تو اس نے کہا تھا کہ میرے سرہانے رکھی فائل پر سرخ روشنائی سے لکھا ہے no sedative تو آپ تو مجھے نیند کی ایک گولی بھی نہیں دے سکتے تو پھر بے ہوشی کی دوا کیسے دیں گے ،تو ڈاکٹر نے جواب میں اس کے لواحقین سے کہا تھا کہ مبارک ہو ۔ اس کا دماغ بالکل صحیح کا م کر رہا ہے اب وہ آپریشن کرے گا۔ وہ اس پر بہت خوش ہوئی تھی۔
فریکچروں کے آپریشن کے بعد اسے گھر منتقل کر دیا گیا۔ اب اس کی مشقت میںاس حوالے سے تھوڑی کمی ہو گئی تھی کہ اسے ہسپتال نہیں جانا پڑتاتھا مگر ایک اور حوالے سے مشقت زیادہ ہو گئی تھی۔اب اس کی ڈیوٹی چوبیس گھنٹے کی ہو گئی تھی۔پہلے تو رات کو چند گھنٹے آرام کے مل جاتے تھے مگر اب وہ بھی نہ تھے۔جوں ہی وہ سونے لگتی تو اس کا شوہر آواز دیتا کہ اس کے پاﺅں کویا ٹانگ کو سیدھا کر دے ، اوپر کر دے یا نیچے کر دے اور وہ پھر بیدار ہو جاتی ۔ کبھی پاﺅں سہلاتی ، کبھی سر دباتی اور کبھی باتیں کر کے اسے تسلی دینے لگتی حالانکہ خود اسے تسلی کی ضرورت تھی ۔ اس نے کبھی اسے محسوس نہ ہونے دیا کہ اب وہ اس کا محتاج ہو گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اب وہ اپنی بشری حاجات کے لیے بھی ہر وقت اس کا محتاج تھا۔ اس نے کبھی ماتھے پہ بل نہ ڈالا اور کبھی اکتاہٹ کا اظہا ر نہ کیا۔اگر اس کا شوہر بیماری کے ہاتھوں مجبور کوئی سخت بات کہہ بھی دیتا تو وہ ہنس کر ٹال دیتی اور کبھی شکا یت نہ کرتی۔وہ اس محتاجی کی حالت میں بھی اسے اپنے سر کا تاج سمجھتی تھی ۔اور یہ کوئی دو چار ہفتوں کی بات نہ تھی ،پورا ڈیڑھ برس اسی حال میں گزرا تھا۔اکیلی جان ، چھوٹے چھوٹے بچوں کی ذمہ داری، بوڑھی والدہ کی خدمت اور شوہر کی نگہداشت۔یہ اسی کا حوصلہ تھا کہ سب کچھ بطریق احسن ہو رہا تھا اورکسی کوبھی کوئی شکایت نہ تھی۔ اور پھروہ دن بھی آیا کہ اس کا شوہر ایک بار پھر اپنے پاﺅں چلنے کے قابل ہو گیا۔ اس دن وہ کتنی خوش ہوئی تھی اور اس نے اپنے رب کاکتنا شکر ادا کیا تھا یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اس نے کسی کو بتایا ہی نہیں ۔ وہ کہتی ہے کہ یہ اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے ۔
اس مہیب سا ل کو گزرے تیر ہ برس ہو گئے مگر آج بھی اس کا شوہر اس کا احسان مند ہے ۔وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ شادی تو آئیڈیل سے دستبرداری کا نام ہے مگر ساتھ ہی کہا کرتا تھا ، لیکن دوستو، مجھے تو میرا آئیڈیل مل گیا ہے ۔ اس بھیانک سال کا ایک ایک پل اُس کے اس دعوے پر مہر تصدیق ثبت کر گیا تھا۔
آج بھی جب کبھی وہ اس کا شکریہ ادا کرتا ہے تو وہ شرما کے کہتی ہے، جانِ من، میں نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیاتھا بلکہ اپنا فرض اداکیا تھا ۔اور وہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ کیا اس زمانے کی ازدواجی زندگی میں وفاداری ، محبت اور ایثارکی اس سے بہترمثال مل سکتی ہے؟ یا پھر بہتر نہیں توکیا ایک مسلمان بیوی اور مشرقی عورت کی اس جیسی مثال ہی مل سکتی ہے ؟ اور پھر اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ایسی مثالیں ملنا نا ممکن نہیں تو محال ضرور ہیں۔
اس کے شوہر کو ہمیشہ یہ اعتراف رہا اور ہے کہ اُس کی زندگی توبس دو عورتوں سے عبارت ہے ایک اُس کی ماں اور دوسری اُس کی بیوی۔اوراکثر شب تنہائی میں وقتِ نیم شب وہ جب ان عورتوں میں سے ایک کے لیے بخشش مانگتا ہے اور دوسری کے لیے سلامتی اور عافیت ،تو نہ جانے اس کی آنکھوں سے آنسو کیوں چھلک آتے ہیں ۔ اور وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ یہ آنسو شکر کے ہیں یا عجز کے عجز اس بات کا کہ وہ ان دونوں کے احسانات کا بدلہ نہ ادا کر پایا۔ اور شکر اس بات کا کہ اس کے مالک نے جو بھی دیااس کی طلب سے سوِا دیا۔
٭٭٭
جناب محمد صدیق بخاری صاحب، اللہ آپکو خوش رکھے، آپ نے تو ایسی بے مثال کہانی سنا کر رلا دیا ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی تو فرمایا ہے کہ آدمی کی دنیا میں با سعادت زندگی کے پیچھے ایک صالحہ اور نیکوکار بیوی کا ہاتھ ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
سلیم بھائی۔۔۔ اپنے فین گروپ میں مجھے بھی شامل کر لیں۔۔۔ آپ کی جب بھی کوئی پوسٹ پڑھتا ہوں، ہمیشہ کچھ نا کچھ سیکھتا ہوں۔۔۔ واللہ، اللہ نے آپ کے قلم میں جادو رکھا ہے۔۔۔۔
ایسا ہی اچھا لکھتے رہیں۔۔۔
والسلام
پیارے عمران اقبال، خوش رہیئے، کیسا فین یار، آپ بھائی ہیں، میرا اور آپکا دل ایک ہی جیسی باتوں پر دکھتا اور کھلتا ہے۔ یاد آ گیا ناں؟
ارے کمال کرتے ہیں آپ سلیم صاحب اور یہ تحریر بھی آپ کی ظرح سلیم پے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ
جناب ضیاء الحسن خان صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، اھلاً و سھلاً و مرحبا- تحریر کیلئے اتنے نفیس کمنٹس صرف آپ کا حسن ظن ہی ہے۔ اللہ آپکو خوش رکھے
میں پھر جزاک اللہ کہوں گا کسی کے مروڑ اٹھتا ہے تو اٹھے
محترم سعید پالن پوری صاحب، جزاک اللہ ایاک ایضاً۔ تشریف آوری کا شکریہ۔
assalam o alaikum,
Mazmoon hamesha ki tarhan acha hay, par ghusse ki halat may talaq na honay wali baat se mujhe ikhtalaf hay, tallaq to zyada tar ghusse may hi jati hay, maine aaj tak nahi suna k kisi ne mazak may talaq di ho,
aap ne neeche comment k reply may apni baat ko clear kar dia, par zyada tar log shayad usay na parhain,
kindly aesi ikhtelafi baatainli khne may ehtiyat se kaam lain, hamare haan aesay logon ki kami nahi jo har ghalat baat k liye kisi ka kandha talash karte hain
Dear Shehr Yar Ahmed, mazmoon pasand karnay aur kami kotahi ko nazar andaz karnay ka shukria. Mian hamesha khaish karta houn keh kisi ikhtalafi baat ki ibtada ka sabab na banou, is baar jo kuch aisa hua hay woski waja main neechay comments main day chuka houn jisko aap qabool bhi kar chukay hain. Apko blog par khosh aamded.
سارے بنیاد پرست اکٹھا ہوں تو یونہی واہ جی واہ ہوگی۔ اگر ایک عورت کا شوہر اپنی بیوی کو بد چلنی کے شبے میں قتل کر دے غصے میں تو آپکا فتوی کیا کہتا ہے۔ اگر ایک شوہر اپنی بیوی کو غصے میں کرکٹ کے بلے سمیت کسی بھی چیز سے مار کر اسکیآنکھ ، ناک، پاءوں یا ہاتھ کوئ بھی چیز توڑ کر ہسپتال پہنچا دے تو مولانا صاحبان اس وقت بھی اسکی شجاعت پہ اسی طرح واہ واہ کر کے خاتون کو صبر کی تلقین کریں گے۔ اگر ایک عورت کا شوہر اپنی بیوی کو اپنے ابا کے گھر سے پیسے لانے پہ مجبور کرتا رہے پھر بھی اسے شوہر کی پیار بھری باتوں پہ یقین کرنا چاہئیے۔ اگر ایک مرد اپنے بچوں کی ذمہ داری سے تو کتراتا ہو مگر بچے پیدا کرنے کے عمل میں بڑی دلچسپی رکتا ہو تو عورت کو خامشی سے اسکے پیار کی اس قسم پہ یقین رکھنا چاہئیے
مولانا صاحب، آپ نے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ کامیاب زندگی میں مرد کی مردباری، ذمہ داری اور محبت سے زیدہ محنت شامل ہوتی ہے یہ آپ بتا ہی نہیں سکتے۔ اس لئے کہ آپ ان سارے روائیتی مردوں کی طرح ہیں جو مذہب کے نام پہ لوگوں کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔ اللہ ایسے مفتیوں سے کب جان چھڑائے گا۔ لاحول ولا قوہ۔
اس قسم کے رسپانس کی توقع آپ سے ہی کی جا سکتی ہے عبداللہ کے بعد،
کیا آپ کسی ایک مولوی کا نام بتا سکتی ہیں جس نے ایسے کام کرنے والے مرد کی حوصلہ افزای کی ہو ؟؟؟ اپنی طرف سے اسمپشنز بنا کر انکی بنیاد پر تقریریں کرنا سائنس میں ہی ہو سکتا ہے دین میں نہیں لہذا سائنس کو دین کے ساتھ مکس اپ نہ کریں ۔۔۔۔ بڑی مہر باندری
ایک ایسا دماغ جو ہر معاملے کا تاریک پہلو دیکھے آنٹی سے بہتر کسی کا نہیں ہو سکتا۔ یہ پیدائش پر بھی بین ڈالتی ہے کہ ہائے ہائے اس نے تو کل کلاں کو مر کھپ جانا ہے۔ اللہ ان کے دماغ پر رحم کرے اور ان کو مولوی اور مفتی کے ڈر خوف سے نجات دلائے۔
پیارے بد تمیز، بلاگ پر خوش آمدید، یار آج کو تنگی دامان کا احساس ہو رہا ہے، اتنے سارے احباب اکھتے ہو گئے۔ راہنمائی کیلئے آتے رہا کریں
محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ۔ میرے بلاگ پر خوش آمدید، اللہ آپ کو بخیر و عافیت رکھے اور آپکے گھر کو ہنستا بستا اور جنت نظیر بنائے رکھے۔
بخدا نا ہی تو میں کوئی ملا اور مولوی ہوں، مفتی ہونا تو میرے نزدیک بہت ہی اعلیٰ اور ارفع مکان ہے جس پر حائز اشخاص معاشرے کی خامیوں اور کوتاہیوں کو اپنی سرزنشوں سے سنوارتے رہتے ہیں۔ آپ نے عالم کا ذکر نہیں کیا ورنہ میں یہ بھی لکھتا کہ عالم انبیاء کے حقیقی وارث اور دین کی احیاء کے ذمہ دار ہیں، اللہ تبارک و تعالٰی علماء حق کا سایہ ہم سب کے سروں پر قائم رکھے۔
آپ میرے مضامین نا پڑھیں مگر صرف اُنکے عنوانات کو دیکھیں آپ کو اُن میں ایک التماس التجا اور فدویانہ انداز نظر آئے گا کیونکہ میں ایک محبت کا پیغام عام کرنے والا ہوں، گھر کی ٹوٹ پھوٹ اور خاندان کے بکھرنے سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے اس لیئے میں ہمیشہ ایسے مقالات کا انتخاب کیا جو امید اور روشنی جھلک کی دکھاتے ہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیئے، مثبت کام کی بنیاد تو ڈال دیجیئے، تجربہ تو کرنے دیجیئے، نا امید مت ہوں، آپ کو ان میں کوئی پریشانی تو نہیں، اپنا ماضی مت بھولیئے، متاثر کن شخصیت، اپنی قیمت کا اندازہ لگائیے، ربڑ کا استعمال کرنا سیکھیئے وغیرہ میرے موضوع رہے ہیں۔
موجودہ مضمون میں، میں گھر کو جنت بنانے یا جہنم بنانے میں بیوی کے کردار پر لکھا ہے جس کا مطلب عورت کی توہین یا تنقیص ہرگز نا تھا کیونکہ اس سے قبل میں (دوسروں کی قدر کرنا سیکھیئے) میں عورت کی کٹھن ذمہ داریوں کا ذکر بھی تو کر چکا ہوں۔
عورت ہر زمانے میں استحصال، ظلم، نا انصافی، جبر اور زیادتیوں کا شکار رہی ہے، مجھ سے بہتر آپ جانتی ہونگی کہ
یونانی تو عورت کو زہر آلود درخت، شیطان کی گندگی اور بکاؤ مال کا درجہ دیتے رہے ہیں
رومن مانتے تھے کہ اس جنس میں تو روح ہی نہیں، اسی لئے تو ابلتے ہوئے تیل میں ڈال دینا یا گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹ گھسیٹ کر ماردینا اُنکا شیوہ ہوا کرتا تھا۔
چینی اپنی عورتوں کو ایک درد ناک پانی سے تشبیہ دیتے تھے تو خوشیوں کو بہا کر لے جاتا تھا اور مرد کو حق حاصل ہوا کرتا تھا کہ اپنی بیوی کو زندہ گاڑ دے۔
ھندو یہ عقیدہ دکھتے تھے کہ موت، جہنم، زہر، سانپ اور آگ بھی عورت کے وجود سے زیادہ بہتر ہیں، حتی کہ اپنے خاوند کے مرنے کے بعد تو عورت کو بھی زندہ جلا دیا کرتے تھے۔
فارس کے لوگ اپنی محرمات سے شادی کر لیا کرتے تھے اور یہ حق رکھتے تھے کہ کسی لمحہ بھی اُن کو موت کے گھاٹ اتار دیا کریں۔
یہودعورت کو لعنت قرار دیتے تھے جو اُنکو انکے اچھے برے کاموں میں رکاوٹ ڈالتی تھی، حیض کی حالت میں ناپاک اور بیٹیوں کو فروخت کر دینا اُنکے نزدیک ٹھیک تھا۔
نصاریٰ تو اس بات پر مناظرے کیا کرتے تھے کہ عورت انسان بھی ہے یا نہیں۔
عرب بچیوں کو عار اور ندامت جانتے تھے، کنویں زندہ ڈال دینا یا زندہ گاڑ دینا تو ان کیلئے عام سی بات تھی۔
اور پھر اسلام کا دور عورت کیلئے رحمت کا بن کر آیا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے کہا کہ :
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ – اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو
فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ – ان کو نکاح کرنے سے مت روکو۔
وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ – ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ – عورتوں کو (ایام عدت میں) اپنے مقدور کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو
وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ – اور ان کو تنگ کرنے کے لئے تکلیف نہ دو
فَآتُوهُنَّأُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً – اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی
وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ – جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریںاس میں عورتوں کا بھی حصہ ہے۔
وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ – اور عورتوں کے لئے ان کی کمائی سے
اور بھی کئی ایسے مقامات پر عورتوں کے حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو عورتوں کی تکریم کیلئے وہ درس دیئے جو اس سے پہلے کسی بھی تہذیب اور تمدن نے نہیں دیئے تھے۔سرکار کے نزدیک لوگوں میں سب سے پسندیدہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھی، سرکار کے پاس کوئی تحفہ آتا تو کسی کو دیکر کہئے فلاں عورت کو دیکر آؤ وہ خدیجہ کی سہیلی ہے۔ سرکار نے فرمایا کہ عورتیں مردوں کی بہنیں ہیں، سرکار نے عورتوں کیلئے اپنی چادر بچھا کر اُنکی تکریم کر کے ہمیں اچھی معاشرت کے درس دیئے، سرکار نے فرمایا کہ آدمی کی دنیا میں با سعادت زندگی کے پیچھے ایک صالحہ اور نیکوکار بیوی کا ہاتھ ہے۔ سرکار اور ہماری اماں عائشہ ایک ہی برتن سے اکٹھے نہایا کرتے تھے، سرکار گلاس سے اُسی جگہ سے منہ لگا کر پانی نوش فرمایا کرتے تھے جہاں سے حغرت عائشہ نے منہ لگا کر پیا ہوتا تھا، سرکار عائشہ رضی اللہ عنھا کی گود میں سر رکھ کر آرام فرمایا کرتے تھے۔
بخدا ہمارے معاشرے میں جہاں آج بھی دین کا رنگ ہے، بیٹی رحمت ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، دل کا چین اور سینے کی ٹھیڈک ہے۔ گھر میں کوئی نیا میوہ آئے تو پہلے بیٹی کو دینا ہمارے معاشرے کی زندہ روایت ہے۔ یقین نہیں آتا تو میرے بلاگ پر اور اسی آرٹیکل مین آئے ایک بنیاد پرست عمران اقبال کی تڑپ دیکھ لیجیئے جس کی بیٹی کے محض بخار نے اُسے دیوانہ کر دیا تھا۔
اور جب یہی بیٹیاں پانے گھروں کو سدھارتی ہیں اور کسی کی بیویاں بنتی ہیں تو ماں باپ کی روح ہر لمحے انہی کے ساتھ لٹکی رہتی ہے، نازو نعم سے پالنا اور بات مگر خاوند کی برابری یا تو تکار کا درس انہیں کبھی بھی نہیں دیا جاتا۔ عورت کی بحیثیت بیوی اور پھر ماں کے ایک حیثیت اور مسلمہ مقام ہے۔
بخدا کوئی بھی بناد پرست عورت کی حق تلفی نہیں کر رہا مگر عورت کے استحصال کے خلاف ضرور ہے۔ عورت کا مقام جہاں ہے اور جدھر ہے یہ بات ہر کوئی جانتا ہے اسی لئے تو عورت کو جوتے کے اشتہار میں استعمال ہونے سے بچانا چاہتا ہے، گاہکوں کو راغب کرنے والی مٹھائی نہیں بنانا چاہتا، بازاری اور بکاؤ مال نہیں دیکھنا چاہتا۔
طلاق اللہ کے نزدیک حلال اور مباح کاموں میں سب سے نا پسندیدہ فعل رہا ہے، طلاق کی تشبیہ جسم کے ایسے ناسور سے دی گئی ہے جسے بادل نخواستہ کاٹا جاتا ہے۔ طلاق مسائل کا حل نہیں مشاکل کی ابتداء ہوا کرتی ہے، طلاق سے گھر ٹوٹتے اور معاشرہ بکھرتا ہے۔ طلاق سے ایک نہیں ھزاروں بگاڑ پیدا ہوتے ہیں جو آجکل کی منہ پھٹ اور برابری کے دعوے کرنے والیاں نہیں جاننا چاہتیں۔
اس مضمون میں یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ گھریلو زندگی عام لوگوں کی زندگیوں سے بہر صورت مختلف ہوتی ہے۔ گھر میاں اور بیوی کے برتاؤ، عفو و درگزر، تحمل و برداشت اور نظر اندازی اور بھلانے سے چلا کرتے ہیں۔ مرد عورت کی ضرورت ہے تو عورت بھی مرد کی محتاج اور ضرورتمند ہے۔ اور اگر عورت حکمت اور دانائی سے خاموش رہ کر یا صبر کر کے اپنے گھر کو جنت نظیر بنا رہی ہے تو اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُس میں اعوذ باللہ انسانیت ہی نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس نے مرد کو اپنی خاموشی سے نادم ہونے اور معذرت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
اسی مثال کو ہم ایک اور نظر سے دیکھتے ہیں (بلا شبہ یہی بات آپ سننا چاہتی ہیں)، اگر یہی عورت اینٹ کا جواب پتھر اور تو تکار کا جواب دست درازی سے دے، مقابلے میں انڈین اور پاکستانی ڈراموں کے عزت نفس والے ڈائیلاگ بولے، باہر نکل کراپنی مظلومیت کا تماشہ بنائے اور کسی این جی او کے سہارے مرد کو عدالت تک بھی گھسیٹ کر لے جائے، معاشرے یا عدالت میں اسکی جیت شاید خاوند سے علیحدگی کی صورت میں ہی ہوگی۔ تو کیا ہم (خاص طور پر پمارے مشرقی اور روایتی اقدار کے مطابق) اسے عورت کی جیت کہہ سکتے ہیں؟ بخدا ہرگز ہرگز نہیں، یہ عورت سراسر گھاٹے میں رہی ہے۔ ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ معاشرے میں کئی ایسے مرد بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ کسی قسم کا صبر اور خاموشی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا، مثال کے طور پر فاسق فاجر کافر اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کو پامال کرنے والا۔ (ایسی صورت میں، میں یہاں اعتراف کرتا ہوں کہ اگر اسباب شرعی اور طبیعی ہوں تو ناصرف اسے مذہب مکمل حمایت اور تعاون دیتا ہے بلکہ اُسے کئی دیگر حقوق بھی حاصل ہیں)
اس مضمون میں اُن عورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو چھوٹے موٹے معاملات پر صبر کرنے کی بجائے خاوند کو اذیت اور گھر کو شکستہ کرنے والے راستوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ کئی ایسی کہانیاں ہیں کہ کھانا خراب بن جانے پر تو تکار ہوئی اور معاملہ طلاق تک جا پہنچا، یا کوئی ڈیکوریشن پیس ٹوٹ گیا یا پھر کوئی معمولی مال نقصان بالآخر طلاق کی نوبت جا بنا۔ ایسے کئی معاملات ہیں جن کو صبر اور خاموشی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
جی ہاں اور اگر بات انسانیت کی آئے گی تو ہمارے دین نے تو ہر معاملے میں اچھائی اور رحمدلی کا درس دیا ہے حتی کہ جانوروں کے ساتھ، جب کہ یہاں تو بات ہی انسان، گھر اور خاندان کی ہو رہی ہے۔
امید ہے میں نے آپکی باتوں کا جواب دیدیا ہوگا۔
خوبصورت تحریر۔ بہت سے لوگوں کے لئے دلچسپ انداز میں نصیحت۔
محترم عمران، بلاگ پر خوش آمدید۔ تحریر پسند کرنے کا شکریہ۔ اللہ کرے یہ کسی کیلئے اصلاح کا سبب بن جائے۔
تحریر ماشااللہ بہت اچھی ہے ، لیکن مجھے غصے کی حالت میں دی گئی طلاق پر شک ہے کیونکہ شاید ایک حدیث کا کم و بیش مفہوم ہے کہ طلاق ۳ حالتوں میں بہرحال نافذ ہو جاتی ہے ، غصے ، مذاق اور تیسری یاد نہیں ۔
محترم انکل ٹام۔ خوش آمدید، آپکی آمد میرے لیئے عزت افزائی ہے۔ جی آپ نے ٹھیک کہا ہے طلاق کے اسطرح کے مسئلہ میں کچھ علماء علیحدہ علیحدہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ یہاں پر میری مراد صرف اس بات کی مثال دینا تھی کہ غصے کی حالت مٰن منہ سے نکلی ہوئی باتیں لا یعنی اور کیئے ہوئے فیصلے ماسوائے ندامت اور پچھتاوے کے کچھ نہیں ہوتے اور نا ہی غصے کے وقت کی ہوئی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ بے وقوفی کی انتہاء تو یہی ہوگی کہ کوئی پرسکون شخص کی باتوں پر تو توجہ نی دے مگر اُسکی غصے کی حالت میں کی گئی گفتگو کو قابل گرفت جانے۔
مردوں کے لیئے یہ پیغام ہے کہ وہ دل بھر کر غصہ اور گالم گلوچ کریں ،
کیونکہ ہمیں نہ تو مرنا ہے اور نہ ہی کسی اللہ کے آگے اپنے اعمال کے لیئے جواب دہ ہونا ہے!!!!!
🙂
عبداللہ صاحب تحریر کو غور سے پڑھ لینا تھا ، وہاں آدمی نے پرسکون ہونے کے بعد کیا ، کیا اس پر بھی غور کرنا تھا ۔
آپ عبداللہ کو دماغ کے استعمال کا ناحق مشورہ نہ دیا کریں ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ بھس بھی کبھی دماغ کے طور پر کام کرتا ہے بھلا؟
عبداللہ صاحب، کسی اللہ کے سامنے نہیں، صرف ایک ہی اللہ ہے (وحدہ لا شریک لہ) کے سامنے پیش ہونا ہے سب نے۔ اللہ دنیا اور آخرت کی منزلوں کو آسان فرما ئیں۔ آمین یا رب العالمین
محترم سلیم صاحب اسلام علیکم و رحمتہ اللہ۔۔
ہمیشہ کی طرح عمدہ تحریر کےلئے آپکا بہت شکریہ۔۔۔ایک چیز ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس مضمون میں مردوں کے لئے کیا پیغام ہے۔۔۔۔؟
راؤ صاحب، تحریر پسند کرنے کا شکریہ- موضوع گھر کو جنت یا جہنم بنانے میں عروت کا کردار تھا کیونکہ یہ سب کچھ اُس کے ہاتھ میں ہے۔ بر سبیل مثال پاکستان کے ایک درمیانہ طبقے کے آدمی کو ذہن میں لائیں تو صورتحال کچھ یوں ہوگی کہ سارا دن افسران کی بد تمیزگیاں سہنے، یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کیلئے لائنوں میں لگ لگ کر خوار ہو کر، پٹرول اور دیگر روزمرہ کی اشیاء کیلئے پھر پھر کر، 47 درجے کی گرمی میں جل بھن کر گھر لوٹنے والے شخص کو ٹی وی کے عزت نفس کے ڈراموں سے یاد کیئے ہوئے ڈایلاگ بولتی خاتوں خانہ سے واسطہ پڑے تو گھر جہنم ہی بنے گا۔ مرد سارے دن کی تلخیاں سہہ کر بھی مسکراتے ہوئے چہرے سے گھر میں داخل ہو، جس طرح کے قہقہے دفتر بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ لگاتا رہا تھا (اکثر بیویاں یہی سمجھتی ہیں کہ بندہ باہر تو عیاشی ہی کرنے جاتا ہے) ویسے ہی قہقہے گھر داخل ہوتے ہوئے بھی مارتا ہوا آئے تو ایسے تصور کرنے والی بیوی یقیناً گھر کو جہنم کی آگ سے ہی بھرنے جا رہی ہے۔ اگر سمجھ داری سیکھ لے یا سمجھداری سے برتاؤ کرنا سیکھ لے تو یہی گھر جنت بھی بن سکے گا۔ خاوند سے قطع تعلقی کر لینا اکثر نادان عورتوں کا شیوہ ہے، یہ سرد جنگ کس طرح اعصاب کو توڑ رہی ہوتی ہے اس سے اُن کو کوئی غرض و غایت نہیں ہوتی۔ امید ہے میں آپ کے سوال کا جواب دیدیا ہوگا۔
پنگ بیک: بیوی کا عاشق | Tea Break
great article
Dear Anonymous, thanks for your appreciation…..
واہ جی واہ ۔ راز کھُلا 44 سال بعد اور وہ بھی آپ کے ہاتھوں ۔ ميری بيوی شادی سے پہلے يا تو اس خاتون کی شاگرد رہی ہو گی يا اس کی کہانی سُنی ہو گی ۔ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ميں غصہ اور غم ميں بہت کم آتا ہوں ۔ گو غصہ عارضی ہوتا ہے مگر جب ايسا ہو تو ميری بيوی ميرے پاس خاموش موجود رہتی ہے ۔ کچھ دير بعد وہ چلی جاتي ہے اور مجھے خوش کرنے کا کوئی سامان کرتی ہے يعنی ميری پسند کی کوئی چيز بنا يا پکا لائے گی ۔ اگر ايسا نہ ہو سکے تو مجھے کوئی اچھا واقعہ سنانے لگ جائے گی
جناب محترم افتخار اجمل صاحب، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو صحت کالمہ و عاجلہ عطا فرمائے، آپ نوجوان نسل کیلئے ایک مشعل راہ ہیں۔ یقیناً یہ آپ کے گھر کی ہی کہانی ہو سکتی تھی، ورنہ آجکل انا اور عزت نفس بنے بنائے گھروں کو اجاڑ رہی ہے۔ اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے
السلامُ علیکم بھائی بہت زبردست تحریر ہے۔ میں اس کو آپ کی اجازت کے بناء ہی ایک فورم پہ شائع کرنے لگا ہوں لیکن وعدہ ہے کہ آپ کے بلاگ کا لنک ہمراہ ہوگا
جناب عدنان شاہد صاحب، سب سے تو آپکو میں اپنے بلاگ پر خوش آمدید کہتا ہوں آمنت باعث آبادی ما
آپ نے میری تحریر کو کسی فورم پر لگانے جانے کے قابل جانا، میں اسکو اپنے لیئے اعزاز جانتا ہوں
محترم! اسمیں کوئی شک نہیں کہ آپکی تمام تحاریر میں چھیے نصائح زندگی کو آسان بنانے کے لئیے مفید ہوتے ہیں۔ اور میری ذاتی رائے میں جن کی زندگی آسان ہے وہ عاقبت کے لئیے بھی وقت نکال لیتے ہیں اور اس پہ غوروفکرو عمل کرتے ہیں۔
اللہ جزائے خیر دے۔ آمین
جاوید بھائی، آپ کی باتیں میرے لئے سند کا درجہ رکھتی ہیں- آپ نے ٹھیک کہا میں لفاظی کی کمی کی وجہ سے ہمیشہ سادہ موضع پسند کرتا ہوں اور کوشش بھی کرتا ہوں کہ اُسے سادگی سے ہی بیان کر دوں- اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اپنی دنیا اور آخرت درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
آپکی یہ تحریر بھی ہمیشہ کی طرح کمال کی ہے۔
جزاک اللہ
محترم بنیاد پرست، بلاگ پر خوش آمدید، مجھے یہ جان کر بہت ہی خوشی ہوئی کہ آپ میری سابقی تحاریر سے بھی واقفیت رکھتے ہیں، جزاک اللہ ایاک
ماشاء اللہ بہت عمدہ تحریر ہے . لیکن اس سے سبق وہی لیں گے جنہیں گھر کی اہمیت کا اچھی طرح اندازہ ہوگا.
پیارے داکٹر صاحب، اللہ تعالیٰ سب گھروں کو جنت نظیر بنائیں، جھوٹی انا اور عزت نفس کے مسائل نے گھروں کو جہنم بنا کر رکھا ہوا ہے۔ تحریر پسند کرنے کا شکریہ