میرا بلاگ نئے ڈومین پر منتقل ہو گیا ہے۔ احباب نوٹ فرما لیں۔
کیا آپ میرے نئے بلاگ پر سبسکرائب ہونا پسند کریں گے؟
میرا بلاگ نئے ڈومین پر منتقل ہو گیا ہے۔ احباب نوٹ فرما لیں۔
کیا آپ میرے نئے بلاگ پر سبسکرائب ہونا پسند کریں گے؟
|
|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
|
|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
عنوان ایک ایسی آیت کریمہ سے لیا گیا حصہ ہے جس میں اللہ تعالٰی نے چند ایسے علوم کا ذکر کیا ہے جن میں بارے صرف اور صرف اسی کی ذات باری تعالٰی ہی جانتی ہے۔ اور انہی چند علوم میں سے ایک علم کسی شخص کی موت کس مقام پر ہوگی بھی ہے۔
اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔ (سورۃ لقمان – 34)
ہمارے پاکستان میں جب کوئی جانکنی کے عالم میں ہو تو اوپر والے اپنی رنگ برنگی باتوں سے بہت مزے لگاتے ہیں۔ اگر مرنے والا کسی کا والد یا والدہ ہو تو جہاں نیک بخت اور با سعادت اولاد ان آخری گھڑیوں کو سعادت جان کر ان کی خدمت اور خدمت کے بدلے ملنے والے اجر سے فیضیاب ہو رہی ہوتی ہے ، وہیں اوپر والے اپنی اپنی حکمت اور دانائیاں بھی جھاڑنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ مجھے اس بار چند مضحکہ خیز حقائق کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
ایک بہت ہی پیارے عزیز بھائی کی والدہ صاحبہ فراش تھیں۔ میرے یہ بھائی تن من اور دھن سے جان لگا کر ایک ایک لمحے کو امر کر رہے تھے جبکہ کچھ احباب یوں کہہ رہے تھے؛ اس کی امی تو بس واپس ملتان جانے کے انتظار میں پڑی ہے، ادھر ہی جا کر اس کی روح قبض ہوگی۔ جہاں چند توہم پرستیوں کا علم ہوا وہیں ایک ستم ظریف نے تو ان عزیز کی والدہ کی موت کا وقت بمعہ دن، گھنٹوں اور منٹوں کے ساتھ نا صرف مقرر کیا بلکہ اس مقررہ وقت تک متوقع میت پر پہنچ جانے کیلئے اپنی گھر والی کو بھی روانہ کر دیا۔ اللہ مستعان ۔ ایسے حالات میں مجھے چند واقعات یاد آئے، جو آپ کے گوش گزار کرتا ہوں:
1993 کی بات ہے بنکاک سے سنگاپور کے راستے میں میرا جہاز اتنا نا ہموار ہوا کہ مسافروں کو دی جانے والی سروس تک معطل کر دی گئی۔ میرے ڈیلے حقیقی معنوں میں باہر کو آ رہے تھے کہ ساتھ والے سیٹ فیلو انگریز نے میری حالت بھانپ لی، میرے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھا اور پوچھا ڈر لگ رہا ہے ناں؟ اب میں کیا بولتا کہ سیٹی ہی گم تھی۔ کہنے لگا حادثات تو زمین پر بھی ہو جاتے ہیں اگر فضاء میں ہو گیا تو کیا انوکھا پن ہوگا۔ تاہم فضاء کا سفر زمینی سفر سے قدرے زیادہ محفوظ ہے۔ کچھ بھی نہیں ہوگا، پر سکون رہو، یہ سب کچھ نارمل ہے۔ ان لمحات میں جو پیغام ایک مسلمان ہونے کے ناطے مجھے دینا تھا مجھے ایک غیر مذہب دے رہا تھا۔
2000 سے پہلے کی بات ہے مکہ روڈ پر چوتھے ٹریک پر ہماری منی بس کے متوازی چلتی ایک بھاری بھرکم امریکی کار نے اپنی پوری رفتار اور تیزی کے ساتھ سارے ٹریکس کو کاٹتے ہوئے ہماری بس کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ کچھ بعید نہیں تھا یہ امریکی کار ہماری بس کے پرخچے ہی اڑا ڈالتی کہ ہمارے ڈرائیور نے بریک لگا کر اسے اپنے سامنے سے گزر کر دو طرفی سڑک کے بیچوں بیچ لگی آہنی باڑ میں جا کر ٹکرانے اور تباہ ہونے دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کار کا یوں بے قابو ہوجانا اس کے اگلے ٹائر پھٹنے کی وجہ تھا۔ موت سیکنڈوں کے فاصلے سے ٹلی تھی۔
شاید 1990 کی بات ہوگی ہانگ کانگ سے گوانزو تک کا آدھے گھنٹے کا سفر اپنی منزل گوانزو ایئر پورٹ کے اوپر تک پہنچ کر بھی اس وقت اٹک گیا جب جہاز کے پائلٹ نے بتایا کہ نیچے موسلا دھار بارش کی وجہ سے ہمارا اگلے ایک گھنٹے تک اترنا ناممکن ہے۔ اور پھر گھنٹے کی بجائے چالیس منٹ کے بعد جہاز کے اترنے کا اعلان کردیا گیا۔ رن وے پر جہاز نے پچھلی پہیئے لگائے ہی ہونگے کہ دھڑام سے اگلی پہیئے زمین پر گرے اور اس ناگہانی حالت کی وجہ سے جہاز کے خانوں میں اوپر رکھا سارا سامان نیچے گر گیا، مسافروں کی چیخیں نکل گئیں اور جہاز کے اندر ایک کہرام مچ گیا۔ جہاز رکنے کے بعد جب پائلٹ نے بتایا کہ ہمارا جہاز پھسل گیا تھا اور اس حالت پر قابو پانے کیلئے ہم نے ایمرجنسی طور پر اگلے پہئے زمین پر گرا کر قابو پانے کی کوشش کی۔ مجھے حقیقت کا نا تو صحیح علم ہوا تھا اور ہی ٹل جانے والے حادثے کا پورا احساس، مگر مسافروں کی تالیاں اور ان کا رو رو کر ایک دوسرے سے گلے ملنا دیکھ کر کسی بری صورتحال سے بچ نکلنے کا اندازہ ضرور ہوا تھا۔ تاہم میں نے واپسی کا سفر ڈر اور خوف کی وجہ سےہوائی جہاز کی بجائے فیری پر کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے 22 دسمبر 2013 کو میرے شانتو والے دوست امجد نے صبح ایوو کا سفر کیا۔ شام کو میری بھابھی (امجد بھائی کی چائینیز گھر والی) نے فون کر کے بتایا کہ ابھی پولیس کا فون آیا ہے امجد فوت ہو گیا ہے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ امجد بنیادی طور پر گوجرانوالہ سے تھا، اپنی پاکستانی شہریت چھوڑ کر ہانگ کانگ کی شہریت اختیار کی تھی جبکہ روزی روزگار کے سلسلہ میں ہانگ کانگ سے دور گزشتہ آٹھ سالوں سے یہاں شانتو میں مقیم تھا جبکہ اس کی موت شانتو سے ہزاروں میل دور ایوو میں جا کر ہوئی۔
2004 میں سعودی ایئر لائن کے ایک انجیبئر دوست کے ساتھ شانتو سے ایوو کا سفر کرتے ہوئے ہمارا جہاز خظرناک موسم کا شکار ہو گیا۔ دوست نے جہاز کی ہیئت، بناوٹ، استعداد، موسموں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت، آٹو پائلٹ، ڈیجیٹلی پروگرامڈ سفر، چلنے سے قبل راستے کے موسموں سے آگہائی اور راستے میں بنے ایمرجنسی اور مخفی لینڈنگ پٹیوں کی دستیابی ، پچھلی نشستوں کی بجائے اگلی نشستوں پر کم محسوس ہونے والے جھٹکوں وغیرہ کے بارےمیں معلومات دیکر آئندہ کیلئے مطمئن رہ کر مرنے کا راز بتا دیا۔