بلاگنگ میرے مطابق


2nd-birthday

 میں نے اپنے ملٹی پل ویزے کی شرائط کو سمجھنے میں غلطی کی جس کا خمیازہ مجھے زبانی وارننگ اور کچھ دن امیگریشن آفس میں حاضری کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ واپس جاتے ہوئے مجھے شک تھا کہیں ایئرپورٹ پر پوچھ گچھ کیلئے روک نا لیا جاؤں اس لیئے وقت سے کئی گھنٹے پہلے چلا گیا۔ اپنی دانست میں، میں لاؤنج میں داخل ہونے والا پہلا شخص تھا مگر مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب پہلے سے موجود ایک کلین شیو پاکستانی نے کھڑے ہوکر دوستانہ انداز میں بازو  پھیلائے تو میں بھی جا کر گلے لگ گیا۔ سلام دعا اور تعارف کے بعد جب پوچھا  آپ کیا کرتے ہیں تو اس نے بتایا وہ تبلیغ کرتا ہے۔ شکل شباہت سے میل نا کھانے والی بات پر قدرے حیرت سے میں نے پوچھا بھائی مجھے بھی تو بتاؤ کیسی تبلیغ کرتے ہو،  کہنے لگا جب بھی وطن واپس جاتا ہوں تو اپنے گھر کے سامنے سے گلی تک خود جھاڑو دیتا اور صفائی کرتا ہوں۔ جو ہمسایہ کوڑا دروازے سے باہر گلی میں ایسے ہی پھینک دیتا ہو  اسے کچھ شاپر خرید کر دیتا ہوں اور کہتا ہوں کوڑا اس میں ڈال کر باہر رکھ دیا کرے کچرے والا اٹھا کر لے جائے گا۔ ہمسائیوں کی مدد اور بوڑھوں کی دیکھ بھال کچھ اس طرح سے کرتا ہوں کہ اور لوگوں کو بھی شہ ملے اور آئندہ وہ بھی ایسے کام میں شریک ہو جایا کریں۔ ماحول کو میں بنا کر رکھتا ہوں اور اللہ کرے گا لوگ آہستہ آہستہ خود ہی ایسے کاموں شامل ہو جایا کریں گے۔ بلاگنگ بھی کچھ ایسی ہی تبلیغ ہے۔ برائی محسوس کی تو لکھ دیا تاکہ روک لئے جانے کا سبب بنے اور اچھائی محسوس ہوئی تو  لکھ دیا  تاکہ اوروں کو شہ مل جایا کرے۔

ہماری سرشت میں جو  بنیادی تعلیم شامل کی گئی ہے اس کے مطابق اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے بلکہ حکمت کی کتاب میں تو یہاں تک بھی لکھا ہوا ہے کہ (اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا)۔  بلاگر پڑھا لکھا تو ہوتا ہی ہے جانتا ہے کہ  "جو شخص جہاد کیے بغیر مَر گیا اور اس کے دِل میں کبھی جہاد کا شوق بھی نہ ہوا، تو وہ ایک قسم کے نفاق کی حالت میں مَرا‘‘  دوسروں کو نصیحت کرتے کرتے اگر کبھی خود عملی زندگی میں لہو لگا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کیلئے  سچی مچی کا جہاد کرنا پڑ جائے تو پتہ چلے گا کتنا مشکل کام ہوتا ہے یہ۔ زخم لگا تو درد تو ہوگا ہی، اینٹی بایوٹیک بھی بہت مشکل سے ملے گی ، پین کلرز کا مناسب اور بروقت انتظام تو بالکل ہی نہیں ہوسکے گا۔

سرکار  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر یہ ذمہ داری بھی لگا دی کہ جو کچھ مجھ سے سنو آگے پہنچا دیا کرو، بس اسی بات پر عمل کرنے کیلئے  اگر سچی مچی کی تبلیغ کرنی پڑ جائے! اردو کانفرنس جیسا ماحول، حاضرین میں اردو  بلاگرز جیسے مہذب اور پڑھے لکھے سامعین  مل جائیں جو مروت میں کچھ سُن لیں تو ٹھیک ورنہ  ایمان سے بسترے سروں پر رکھ کر گرم و سرد موسم کا لحاظ کیئے بغیر، گلی کوچوں اور محلوں میں پھر پھر، تبلیغ کے لئے لوگوں کے تلخ طعنے اور کڑوی  باتیں سننی پڑ جائیں تو بہت مشکل ہو جائے گی۔

آپ کو یاد ہوگا جب پاکستان میں موبائل  پر کال آنے  سے لوگ مر رہے تھے اس وقت کئی لوگوں کے دوستوں  کے محلے میں کئی آدمیوں کو ایسے فون آئے تھے جن کو سنتے ہی ان کے کانوں سے خون نکلنا شروع ہو گیا تھا مگر ان لوگوں کے اپنے محلے میں کبھی بھی ایسا کوئی فون نہیں آیا تھا۔ سنی سنائی باتوں کو بغیر تصدیق کیئے آگے پہنچا کر ہر آدمی نے اپنے طور پر اس فتنے میں حصہ ڈالا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی اس سے پہلےہر دور میں اور ہر زمانے میں اس جیسی کئی شر انگیز باتیں پھیلتی رہی ہیں اور شاید آنے والے وقتوں میں اس میں اور بھی تیزی آ جائے۔

بچپن میں ہمارا  محلے دار نیاز بھائی  ایک منٹ میں چالیس قلمیں بنا کر اپنے آپ کو پاکستان کا سب سے تیز ترین قلمیں بنانے والا کہتا تھا۔ اس کی قلموں کے ڈبے پر لکھا ہوتا تھا قلم تیز چلتا ہے تلوار سے۔ اس بات کا مطلب میں تو ہمیشہ قلم کی نوک انگلی میں چبھو کر یہ لیا کرتا تھا کہ نیاز بھائی کی قلم شاید اسی طرح ہی تلوار سے تیز ہو سکتی ہے۔  اب  جب کہ قلموں کا دور قصہ پارینہ بناتو   پتہ چلا ہے  کہ نیاز بھائی کی اس  بات میں کیسی حکمت پوشیدہ تھی۔کرسی پر بیٹھ کر جہاد اور لیٹے لیٹے لیپ ٹاپ کو زانوؤں پر رکھ کر تبلیغ کرنی ہے تو  ہمیں اپنے جذبوں میں صداقت اور اپنے لفظوں میں حقیقت ڈالنی پڑے گی۔

آج سے دو سال قبل آج کے دن جب میں نے باقاعدہ بلاگ شروع کیا تھا تو یہی نیت اور منشاء تھی کہ جو بات مجھے اچھی لگی اُسے دوسروں تک پہنچاؤں گا۔ میں نے ہمیشہ  محبت، اتفاق، ایثار، صلہ رحمی، اخوت، صداقت اور باہمی بھائی چارے پر لکھا اور کئی بار اچھا بھی لکھا گیا۔ میرا عہد تھا کہ اگر مجھ سے بات زیادہ نا پھیل سکی اور  دوسرے میری بات کو  آگے پھیلا دیں گے تو خوشی ہوگی۔ نمود کی ڈبو دینے والی خواہش بھی کیا چیز ہوتی ہے، جب فیس بک پر کچھ لوگوں کو اپنے مضامین کچھ اس طرح پوسٹ کرتے دیکھا کہ وہاں ایک ایک پوسٹ پر لائک اور شیئر کی تعداد میرے کئی کئی بلاگز کی مجموعہ ریڈز سے کئی گنا زیادہ تھی تو بجائے ان کا شکر گزار ہونے کے میرا نفس باغی ہو گیا، میں نے ان کی پوسٹ کے نیچے جا کر لکھنا شروع کر دیا کہ اس مضمون کو پڑھنے کیلئے  مصنف کے بلاگ پر تشریف لائیں۔ آج مجھے اپنی اس حرکت پر ندامت ہے اور میں بہت  شرمندہ ہوں۔

اگر  ہم بلاگرز یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے معاشرے میں توازن پیدا کرنے، نیکی کی ترویج اور برائیوں کی نشاندہی کرنے کی ٹھانی ہے ،( اگرچہ  ہمارا یہ کام  ایمان کے ایک اوسط درجے کا ہی ہے مگر  نا ہونے سے تو  بہتر ہی ہے) تو پھر   کیوں ناں  اس کام کو پورے اخلاص، ایثار  اور دل جمعی کے ساتھ کیا جائے، صلے کی امید نا ہو، نیکی کر کے دریا میں ڈالی جائے۔ بلاگنگ کی اس شجر کاری کو پھل کی  امید پر نہیں آئیندہ آنے والوں کیلئے پھل اور چھاؤں کا سامان پیدا کیا جائے کی امید پر ہو۔ آپ کسی خبر کا مصدر ہیں تو دیکھ لیں آپ کی بات حق کی آواز بننے جا رہی ہے یا کسی فتنے اور شر کی بنیاد۔

میں نے ان دو سالوں میں جتنی محبتیں سمیٹی ہیں وہ میری مقدور سے زیادہ تھیں، جتنے لوگوں نے میرے بلاگ کو وزٹ کیا، تبصرہ کیا، پسند کیا، حوصلہ افزائی کی اُس کیلئے ممنون ہوں۔ خاور بھائی کا یہ تبصرہ  میرے لئے حاصل محنت تھا (پچھلے ایک سال سے میں دیکھ رہا  ہوں کہ جتنی تحاریر لوگوں نے آپ کی چوری کرکے اپنے نام سے شائع کی ہیں یہ بھی ایک ریکارڈ هو گا۔ یہ  دیکھیں ایک مثال http://www.**************/ آپ کا لکھنے کا ایک اپنا انداز ہے, جس پر بندہ تبصره کرنے سے زیادہ  دل میں سراہتا  ہی ره جاتا ہے، جاری رکھیں جاننے والے جانتے ہیں کہ کس کی تحریر ہے)۔

یہ میرا مخصوص انداز کیا ہوتا ہے: مصطفیٰ قریشی صاحب کو پنجابی بولنے میں دقت آئی تو انہوں نے آجکل کی میرا یا پھر مخدوم صاحب کی طرح چبا چبا کر بولنا شروع کیا تو عوام کو الفاظ کی ادائگی کا انکا یہ انداز بھا گیا جو  بعد میں ان کی پہچان ٹھہرا، بالکل اسی طرح میں نے اپنی کم علمی کو آسان الفاظ میں لکھ کر اپنی شناخت بنایا تو آپ لوگوں نے سمجھا یہ بندہ عام فہم بات کرتا ہے اس طرح میری خامی میری خوبی ٹھہری، آپ کی مروت کو سلام کرتا ہوں۔

آخر میں ایک مختصر واقعے کے ساتھ: ایک بار ریڈیو پاکستان کا عملہ گاڑی خراب ہونے کی بناء پر صبح بروقت نا پہنچا تو  ریڈیو اسٹیشن کے چوکیدار نے سسٹم چلا کر یہ اناؤنسمنٹ کی کہ حضرات آج آپ کے میزبان تو ابھی تک نہیں پہنچے، میں جانتا ہوں آپ اس وقت تلاوت کلام پاک سنا کرتے ہیں، جب تک وہ لوگ نہیں آتے آپ یہ تلاوت سماعت فرمائیں۔ یہ بات اس ان پڑھ چوکیدار کیلئے صدارتی ایوارڈ کا باعث بنی۔ بالکل اس ان پڑھ چوکیدار کی طرح آج میں نے اپنے بے ربط لفظوں سے آپ کو بامقصد  بلاگنگ کرنے کیلئے شہ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے بلاگ کی دوسری سالگرہ بھی منا لی ہے، آپ کی خوشیوں کیلئے دعا گو ہوں۔

About محمد سلیم

میرا نام محمد سلیم ہے، پاکسان کے شہر ملتان سے ہوں، تلاشِ معاش نے مجھے آجکل چین کے صوبہ گوانگ ڈانگ کے شہر شانتو میں پہنچایا ہوا ہے۔ مختلف زبانوں (عربی خصوصیت کے ساتھ) کے ایسے مضامین ضن میں اصلاح اور رہنمائی کے دروس پوشیدہ ہوں کو اردو میں ترجمہ یا تھوڑی سی ردو بدل کر کے ایمیل کرنا میرا شوق رہا ہے۔ میں اپنی گزشتہ تحاریر کو اس بلاگ پر ایک جگہ جمع کرنا چاہ رہا ہوں۔ میں مشکور ہوں کہ آپ یہاں تشریف لائے۔
This entry was posted in Uncategorized and tagged , , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink.

24 Responses to بلاگنگ میرے مطابق

  1. راجہ صاحب نے کہا:

    گو کہ کچھ دیر سے پہنچا ہوں اس کے باوجود دوسری سالگرہ کی مبارک باد قبول فرمائیں
    امید ہے یہ تبلیغی کام اسی طرح جاری رہے گا
    خوش رہیں۔

  2. عبدالرؤف نے کہا:

    سلیم بھائی، بلاگ کی عمر ، دو سال ہونے کی مبارک باد قبول فرمائیے۔

  3. محبوب بھوپال نے کہا:

    آسلام و علیکم جناب

    اپ کو اور آپ کے تمام قاریئن کو دوسری سالگرہ مبارک ھو

    اللہ اسی طرح آپ کو اور ھم سب کو تبلیغ کرتے رہنے کی توفیق دیتا رھے آمین

  4. وسیم رانا نے کہا:

    سلیم بھائی سچی بات بتاؤ تو وہ یہ ہے کہ میں نے آپ کے بلاگ سے زندگی جینا سیکھی۔آپ کی تحریروں کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔
    اور دوسری سالگرہ بہت بہت مبارک ہو آپ کو

  5. خرم ابن شبیر نے کہا:

    سر جی مبارک ہو بلاگ کی دوسری سالگرہ۔
    آپ کی تحریریں بے شک بہت کام کی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت مند زندگی عطا فرمائے آمین

  6. محمد اسلم انوری نے کہا:

    جناب ڈاکٹر سلیم صحاب۔
    اسلام علیکم
    نیکی کی جائے یا بدی نفے کے ساتھ لوٹائی جاتی ھے۔ بلاگ کی کامیاب تحریروں کی سالگرھ مبارک ،اللہ زور قلم مزید بلند کرے آمین-
    آپ کے بلاگ پرتبصرہکرنے کے بجائے خاور بھائی کا یہ تبصرہ ذیادہ موزوں ہے۔
    "آپ کا لکھنے کا ایک اپنا انداز ہے, جس پر بندہ تبصره کرنے سے زیادہ دل میں سراہتا ہی ره جاتا ہے”
    وسلام

  7. منصورالحق منصور نے کہا:

    بارک اللہ تعالی فی علمک وعملک وقلمک

  8. سعد نے کہا:

    آپ کی تحاریر واقعی میں پڑھنے لائق ہیں
    مبارک بار دقبول کیجئے
    شکریہ

  9. عدنان شاہد نے کہا:

    سلیم بھائی بہت پتے کی بات کی ہے آپ نے
    اللہ پاک ہم سب کو سچی اور اچھی بات آگے پہنچانے کی توفیق دے
    آمین

  10. شازل نے کہا:

    اچھی اور کھری بات ہمیشہ دل پر اثر کرتی ہے۔ پہلے پہل میں اپنی دل کی بات لکھ لیا کرتا تھا۔ جس سے میرا آدھا غم تو اسی وقت ختم ہوجاتا تھا۔ اب عرصہ ہوا لکھنے سے رہا۔ اس لیے چھوٹی چھوٹی پریشانیاں بھی منہ کھولے کھڑی ہوتی ہیں۔

    • محمد سلیم نے کہا:

      جناب شازل صاحب المحترم۔ بلاگ پر خوش آمدید۔ اللہ پاک ہر قسم کی پریشانیوں‌اور مشکلات سے محفوظ رکھیں۔ اپنے مشاہدات کو لکھ کر دوسروں‌کیلئے مشعل راہ بنا دیں۔ اللہ پاک آپ کو استقامت دے

  11. صغیر نے کہا:

    جزاک اللہ خیرا سلیم بھائی

  12. سلیم بھائی!
    مبارک ہو۔ اللہ تعالٰی۔ آپ کو یونہی ایسے نیک جذبوں سے معمور و لیس رکھے۔

  13. بلاگ کی سالگرہ مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ آپکی زندگی میں آسانیاں اور فراغت عطا فرمائے تاکہ آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔ آمین۔

  14. کوثر بیگ نے کہا:

    بہہت بہت مبارک ہو بھائی آپ کو بلاگ کی دوسری سالگرہ ۔۔ اللہ پاک ایسے ہی ہمیشہ آپ کے قلم کو رواں دواں رکھے ۔آمین

  15. علی نے کہا:

    سلیم بھائی آپکے بلاگ کی سالگرہ پر ہمیں آپ سے زیادہ خوشی ہو رہی ہے۔
    اللہ میاں آپکی تبلیغ کو مزید موثر بنائے اور آپکا بلاگ مزید کئی سال تک چلتا رہے

Leave a reply to راجہ صاحب جواب منسوخ کریں