کسی سکول میں ایک استاد ہوتا تھا۔ بہت ہی لائق اور محنتی، پڑھانے کو فرض سمجھنے اور پڑھائی کے پیشے کا حق ادا کرنے والا۔
ایک بار سہ ماہی امتحانات کے دن قریب آنے پر اُسے امتحان لینے کا ایک نیا طریقہ سوجھا۔
روایتی تحریری یا زبانی امتحانات جیسے طریقوں سے سےہٹ کر ایک مختلف اور اچھوتا طریقہ۔
امتحان والے دن اُس نے طلباء سے کہا وہ اپنے ساتھ تین مختلف قسم کے پرچے بنا کر لایا ہے۔
جو ہر قسم کی ذہنی صلاحیتوں والے طلباء کے لئے مناسب اور موزوں ہیں۔
پہلی قسم کے پرچے اُن طلباء کیلئے ہیں جنہیں اپنی ذہانت، اپنی محنت اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔ ان پرچوں میں مشکل سوالات دیئے گئے ہیں۔
دوسرے قسم کے پرچوں میں درمیانہ قسم کے طلباء کیلئے عام قسم کے سوالات ہیں۔ درمیانہ ذہانت کے طلباء سے مراد ایسے طالبعلم جو پڑھتے تو ہیں مگر پڑھائی پر اضافی توجہ دینے اور سخت محنت سے کتراتے ہوئے۔ صرف پاس ہوجانا ہی اُن کا مطمع نظر ہوتا ہے۔
اور تیسری قسم کے پرچے ایسے طلباء کیلئے ہیں جو پڑھائی کے معاملے میں انتہائی کمزور ہیں۔ اپنی لا پروائی یا دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ مصروفیت کی وجہ سے وہ تعلیم کو وقت ہی نہیں دے پاتے اور نا ہی وہ کسی قسم کے سخت امتحانات یا مشکل قسم کے سوالات کیلئے ذہنی طور تیار ہیں۔
طالبعلموں نے اپنے اُستاد کی بات کو بہت ہی تعجب سے سنا۔ امتحان کیلئے اس قسم کے پرچے بنائے جانا اُن کیلئے ایک ایسا انوکھا تجربہ تھا جس سے انہیں اپنی ساری تعلیمی زندگی میں کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ پرچہ شروع ہونے کی گھنٹی بجتے ہی سب طلباء اپنی اپنی پسند کے پرچے اُٹھانے کیلئے لپکے تو صورتحال کچھ اس طرح کی سامنے آئی کہ:
چند ایک طالبعلم ہی ایسے تھے جنہوں نے مشکل سوالات والے پرچے اُٹھانا پسند کیئے تھے۔ اور جتنے ایک طلباء نے مشکل پرچے اُٹھائے تھے اُن سے تھوڑے زیادہ طلباء نے درمیانی قسم کے پرچے لیئے تھے۔ جبکہ طلباء کی اکثریت نے آسان سوالات والے پرچے لینا ہی پسند کیئے تھے۔
میں اپنی یہ کہانی پوری سنانے سے پہلے آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ بھی ان طلباء میں شامل ہوتے تو آپ کس قسم کا پرچہ اُٹھانا پسند کرتے؟
امتحان شروع ہوا تو کئی ایک حیرت انگیز باتیں طلباء کے انتظار میں تھیں۔ جن طلباء نے مشکل سوالات والے پرچے اُٹھائے تھے وہ یہ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے سوالات تو اتنے مشکل ہرگز نہیں تھے جتنے مشکل کے وہ توقع کر رہے تھے۔
جن طلباء نے درمیانی قسم کے پرچے اُٹھائے تھے انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اکثر سوالوں کے جوابات حل کر سکتے ہیں۔ دل میں تو یہ سوچ رہے تھے کہ کاش اُنہوں نے مشکل سوالوں والے اُٹھائے ہوتے تو بھی وہ کئی سوالات حل کر ہی ڈالتے۔
حقیقی معنوں میں صدمہ اُن طلباء کو پہنچا تھا جو آسان سوالوں والے پرچے اُٹھا لائے تھے مگر حقیقت میں وہ سوالات اتنے آسان بھی نہیں جتنے آسان کی وہ توقع کر رہے تھے۔
استاد خاموشی سے سب طلباء کو پرچے اُٹھا کر جاتے اور حل کرتے وقت اُن کے چہروں پر آئے ہوئے تأثرات کو دیکھتا رہا۔ امتحان کا مقرر ہ وقت ختم ہونے پر اُس نے سب سے پرچے اور جوابی کاپیاں جمع کر کے اپنے سامنے رکھیں اور طلباء سے کہا کہ وہ ان پرچوں کے نمبر لگا کر ابھی سب کو نتیجہ سنا دے گا۔
طالبعلموں کو یہ بات تو کچھ زیادہ ہی عجیب لگی۔ چھٹی ہونے میں تھوڑی سی دیر رہتے وقت میں اُستاد زیادہ سے سے زیادہ دو یا چار پرچے چیک کر سکتا تھا ، ساری جماعت کے پرچے چیک کرنا تو ناممکن ہی تھا۔
مزید حیرت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب اُستاد ہر طالبعلم کا حل کیا ہوا پرچہ اُٹھاتا اور اُسے بغیر دیکھے اور پڑھے ، اُس طالبعلم کے اختیار کردہ پہلی ، دوسری یا تیسری قسم کے سوالات والے پرچے کے مطابق مخصوص نمبر لگا کر واپس رکھ دیتا۔ طالبعلم اِس ساری صورتحال کو خاموشی مگر نہایت ہی حیرت سے دیکھ رہے تھے مگر اُن کی یہ حیرت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔
استاد جیسے ہی نمبر لگانے سے فارغ ہوا تو اُس نے طلباء کو کئی ایک غیر متوقع باتیں بتائیں۔ استاد نے اس اچھوتی قسم کے امتحان سے راز اُٹھاتے ہوئےجو پہلی بات بتائی وہ یہ تھی کہ:
تینوں قسم کے پرچے حقیقت میں ایک جیسے ہی تھے، کسی میں بھی کوئی مختلف سوال نہیں تھا۔
دوسرا راز یہ تھا کہ جن طلباء نے مشکل سوال سمجھ کر پرچے اُٹھائے تھے اُس نے اُن طلباء کو اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تھا۔
جن طلباء نے دوسری قسم کے عام سوالات والے پرچے اُٹھائے تھے اُن کو درمیانہ قسم کے ہی نمبر دیئے گئے تھے۔
اور جن طلباء نے سوالوں کو آسان سمجھ کر اُٹھایا تھا ان کو سب سے کمتر اور کمزور درجہ سے پاس کیا گیا تھا۔
اُستاد کی یہ باتیں سُن کر طالبعلموں کے منہ بن کر رہ گئے، اُنکے زیر لب شکوے اب صرف بڑبڑاہٹ ہی نہیں بلکہ آواز بن کر اُستاد تک پہنچ رہے تھے۔ خاص طور پر وہ طلباء جنہوں نے درمیانی قسم یا آسان سوالات والے پرچے لیئے تھے اُن سے یہ بات ہضم نہیں ہو پا رہی تھی۔ انہوں نے تو باقاعدہ اُستاد سے اس بات کی وضاحت ہی مانگ لی۔
اُستاد نے اپنے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:
اُس نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا۔
اُس نے سب کو نمبر اُن کی اپنی اختیار کردہ حیثیت کے مطابق ہی تو دیئے ہیں۔
جو طالبعلم اپنی محنت پر بھروسہ اور صلاحیتوں پریقین رکھتا تھا اور اُس نے مشکل سوالات والا پرچہ اُٹھایا تھا، اُس کا حق بنتا تھا کہ اُسے اُس کی محنت کا حق اعلیٰ درجے سے دیا جائے۔
جسے اپنی قابلیت پر شک اور اپنی صلاحیت کا اندازہ تھا کہ اُس نے نا تو دل لگا کر پڑھا اور نا ہی سنجیدگی سے محنت کی ہوئی تھی، اُس نے درمیانہ قسم کے پرچے اُٹھائے اور اُسے اُس کی قدرات کے مطابق ہی درمیانہ نمبر دے دیئے گئے تھے۔
اور وہ کمزور طلباء جنہیں بخوبی پتہ تھا کہ وہ پڑھنے کے معاملے میں نکمے ہیں، اپنے اسباق یاد کرنا تو دور کی بات، انہوں نے تو اپنا وقت پڑھائی سے دور بھاگنے، کام چوری ، سستی اور لا پروائی میں گزارا ہوا تھا۔ تو ایسے طلباء کو تو اُن کی صلاحیت کے مطابق ہی ضعیف ترین نمبروں سے پاس کیا گیا تھا۔
جی ہاں۔ ہماری زندگی بھی تو بالکل اسی طرح ہی ہے!
جس طرح ان طلباء نے اپنے لئے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق راستوں کا اختیار کیا، اُسی طرح
آپ کو بھی یہ جان لینا چاہیئے کہ یہ زندگی ہر شخص کو اس کی اپنی تیاری اور اُسکی قدرت و استطاعت کے مطابق ہی درجے، ترقیاں، اور اجرت و معاوضہ دیا کرتی ہے۔
اسی طرح ہی دوسرے لوگ، خواہ وہ آپ کے اساتذہ ہوں یا آپکے اداروں کے سربراہان و مالکان، حتیٰ کہ آپ کے دوست اور آپکے جاننے والے عزیز بھی، ان میں سے کوئی بھی آپ کو آپ کے حق سے زیادہ نہیں دے گا۔
اگر آپ زندگی کی دوڑ میں اعلیٰ مراتب اور بلند درجوں کے خواہشمند ہیں، تو پھر آپ کو بلا خوف اور پورے اعتماد کے ساتھ سخت امتحانات کو اختیار کرنا پڑے گا۔
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپکو سب سے کمتر اور ضعیف درجے کی کامیابی چاہیئے یا کہ اعلٰی درجوں والی؟
I terms of its bookish value the article is good, but there are soooooooooooo many people int this world who are getting muchhhhhhhhhh more than they deserve and despite hard work there are soooooooooooo many people in this world who are not getting their fair share. I have seen this reality so many times that no argument whatsoever can change my perspective about it. I think we should try and pray to Allah but the decision of success or failure rests with him. Also there are many corrupt people who are flourishing in this world (our current govt is best example) while innocent people are helpless and poor.
Janab Saeed Sahb, welcome to my blog. I appreciate your time you have spent here. Your comments means to me too much.
Yes, stuggle and then tawakal are the keys to success. Do you still remember that Radio ad we ever listened, it was
محنت، قدرت تے اینگرو یوریا
I will be waiting for your further comments and guidance.
جاناب مہترام سالععم باھی ماین ااپ کی ھار کاھانی پارتا ھہہن ماسھلااھ سعع اپ بھہت اچھی تارھاسعع سامجاتع ھاین بہہت بہہت سھئکریا اللاھ ااپ کہ بہہت بہہت کئسھ راکعع اامععن ’تھانکئ
سلیم بھائی!۔
اسمیں کوئی شک نہیں آپکی تحاریر عام ڈگر سے ہٹ کر مثبت ،منفرد اور نصحیت آموز ہوتی ہیں۔ ایک عام آدمی بھی وہ نکتہ بخوبی سمجھ لیتا ہے۔ جو تحریر کا مرکزو محور ہوتا ہے۔
آپکی اس تحریر سے بنے بنائے سانچوں میں ڈھلے اذہان کو ایک مثبت طریقے سے تبدیلی اور انقلاب کی ترغیب ملتی ہے۔ کہ سانچے توڑ کر اور خول ایک طرف رکھتے ہوئے، اپنی ظاہری اور خفیہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، معمولات زندگی کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے۔
اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے۔
جاوید بھائی، تحریر سے اچھا تبصرہ کرنے پر میری طرف سے شکریہ قبول فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
wonder full story lots of moral for great guide line of life
Respected Azam Khan, welcome, thanks to like this article.
Dear brother, M. Saleem! You have narrated a useful article reflecting once again a brain storm idea to refine our daily life activities especially for educational structure. The key for the success is hiden in the article. It is stringent for the people to leap to top by employing this simple rule. By reviewing and judging the published articles, the present literatery style is found to be much better than past articles. The selection of article title and written style is up to the standard and becoming popular in the community. Keep continue to write with figure out progress. My wishes and blesing remains with you.
Yours
Dr. Zubair Ahmad Malik.
محترم ڈاکٹر زبیر احمد صاحب، سر جی ایک تو آپ اتنے عرصہ کے بعد تشریف لائے ہیںاور پھر اوپر سے اتنی اوکھی انگریزی میں تبصرہ کیا ہے۔ میںتو صرف آپ کا شکرگزار ہی ہوں، باقی پڑھنے والوں کی مرضی۔
بہت خوب ۔
زین، خوش آمدید اور بہت بہت شکریہ۔
میں نے ایک ناول ” جب زندگی شروع ہو گی” کا مطالعہ کیا تو اس میںبھی مجھے ایسی ہی حقیقت پتہ چلی کہ درحقیقت نسل انسانی کو اپنی قابلیت اور خود اعتمادی کی بنا پر ہی دنیا میں آنے، نہ آنے، کٹھن رستہ اختیار کرنے، آسان رستہ اختیار کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اور جس نے جو کوئی رستہ اختیار کیا اس کی مارکنگ بھی اسی حساب سے ہو گی۔
بہت شکریہ سلیم صاحب، ہمیشہ کی طرح ایک خوبصورت مضمون
جزاک اللہ
یاسر بھائی، مضمون پسند کرنے کا شکریہ۔ آپ کی بات بالکل درست ہے۔ مزید جتنا بھی گھما پھرا کر بات کر لیں آخر میں نتیجہ (لیس الانسان الی ما سعی) ہی رہتا ہے۔ اور کمتر کام کرکے اچھے معاوضہ لینے والوںسے حسد تو نہیںکیا جا سکتا ناں، یہ بات بھی سمجھنی پڑے گی۔
بہت ہی اچھی تحریر ہے۔ پڑھ کر مزہ آیا اور بہت کچھ سوچنے لگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔۔۔آمین
بلال بھائی سے درخواست ہے کہ سلیم بھائی کے بلاگ کے پرما لنک بہتر بنانے میں ان کی تھوڑی سی رہنمائی کر دیں، کیوںکہ پرما لنک خوبصورت انداز میں ظاہر نہیںہو رہے۔ اس کی لیے ورڈ پریس کی سیٹنگ میں تبدیلی اور ایچ ٹی ایکسیس فائل سے تھوڑی چھیڑ چھاڑ درکار ہو گی۔
لیں جناب پرما لنک بہتر کر دیا ہے۔
ویسے اب آر ایس ایس فیڈ ایڈریس بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ اگر سلیم بھائی نے اپنے بلاگ کے ایڈریس کی تبدیلی کے لئے اردو سیارہ کو درخواست بھیجی ہوئی ہے تو پھر دوبارہ درخواست بھیج دیں اور نیا فیڈ ایڈریس ہے۔
http://www.hajisahb.com/blog/feed/
محترم بلال بھائی، کافی دنوںکے بعد تشریف لائے ہیںآپ۔ میرے لئے آپ کا تبصرہ آپکی خیریت و عافیت کی اطلاع کے مترادف ہے۔ مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔ اللہ آپکو خوش رکھے
خوب تحریر ہے ماشاء اللہ۔ پڑھ کر اچھا لگا۔
محترم عمار ابن ضیإ صاحب۔ اگر بلاگ پر آپ کی آمد میرے لئے باعث فخر ہے تو مضمون کو پسند کرنا ایک سند۔ اھلا و سھلا یا مرحبا۔
ا چھوتی اور منفرد اور سبق آموز تحریر آپکی کاوش کو سلام۔
عمران علی شاہ۔ خوش آمدید۔ اور اتنے پیارے تبصرے کیلئے شکریہ قبول کیجیئے۔
dear sir it is really a wonderful piece of art
Respected Nadeem Khan, many thanks for your kind appreciations at my work.
Mr. Saleem you have expressed very beautifully the secrets of success. Keep it up please.
With my all the best heartiest wishes and warmenst regards.
Muhammad Abrar Qureshi
Jeddah
Respcted Abrar Qureshi Sahb, I am very much thankful to you for your kind wishes, compliments, also thank you for liking my article as well. With your moral support, sure, I will keep it up….
سلیم بھای کہاں (۔۔ غیب سے یہ مضامیں خیال میں) سے چھانٹ کر لاتے ہیں کہ بے اختیار منہ سے نکلتا ہے کہ "جو بات کی لاجواب کی” (بات کا مطلب پوسٹ)
جناب احمر صاحب؛ عزت افزائی کا بہت بہت شکریہ۔ تشریف لاتے رہا کریں۔
پنگ بیک: زندگی کے امتحان بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں | Tea Break
بہت اعلی سلیم صاحب، آپ نے بہت ہی اچھے طریقے سے دنیا کی ایک بڑی حقیقت کو سمجھایا ہے۔ اس تحریر سے مجھ سمیت کئی دوستوں کو اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنے کا موقع ملا ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
محترم ابو شامل، میرے بلاگ پر خوش آمدید، اھلا و سھلا و مرحبا۔
آپ کو مضمون اچھا لگا، یہ جان کر مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے۔ اللہ کرے ہم باتوں سے ایک مرحلہ آگے عمل کی طرف جائیں۔ وقتا فوقتا راہنمائی کیلئے تشریف لاتے رہا کریں۔
سلیم بھای آپ نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ شکریہ
محترم محمد یعقوب خانزادہ صاحب، بلاگ پر خوش آمدید، اللہ آپ کو خوش رکھے۔ اگر میرا پیغام واقعی کسی کیلئے اچھائی کا سبب بن جاتا ہے تو یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہوگی۔ اللہ کامیابیاںآپ کے مقدر کرے۔
بہت بہترین۔۔۔۔
محترم خالد، بلاگ پر آمد اور مضمون کو پسند کرنے کا شکریہ۔
پنگ بیک: زندگی کے امتحان بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں | Muhammad Saleem